جرنیلوں سمیت حکمران طبقے کو اپنی 75 سالہ ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے، حافظ نعیم الرحمن

ہفتہ 18 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جماعت اسلامی کراچی کے امیر اور میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے وی نیوز کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک جرنیل اور ایک مزدور دوںوں برابر ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن سمجھتے ہیں کہ جرنیلوں سمیت حکمران طبقے کو اپنی 75 برس کی ناکامی کو اعتراف کرنا چاہیے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کا کہنا تھا کہ ’75 سال کے اس تجربے کے بعد یہ سوال ہی ختم ہو جانا چاہیے کہ کس پر بات ہوسکتی ہے اور کس پر نہیں‘۔

’75 سال کی ناکامی کا جواب دینا چاہیے‘

حافظ نعیم الرحمن کے مطابق ’سب کو اپنی 75 سال کی ناکامی کا جواب دینا چاہیے۔ 75 سال میں کس کی حکومت رہی ہے؟ جاہلوں کی رہی ہے؟، غریبوں کی رہی ہے؟ یا مڈل کلاس کی رہی ہے؟ ان میں سے کسی کی نہیں رہی۔ پاکستان میں حکومت رہی ہے ٹاپ کلاس جرنیلوں کی۔ ٹاپ کلاس بیورو کریٹس کی۔ ٹاپ کلاس وڈیروں اور جاگیرداروں کی اور ان لوگوں کی جو اس سسٹم کو چلانے والے سیاستدان ہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ ’حکومت مسئلہ نہیں ہوتی، حکمران طبقہ مسئلہ ہوتا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کے پارٹنر ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے سہولت کار ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے خلاف بات نہیں کریں گے۔ ان سب کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ جرنیلوں کو بھی کرنا چاہیے۔ جاگیرداروں کو بھی کرنا چاہیے‘۔

’پیپلزپارٹی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہے‘

میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے بلدیاتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ بظاہر پورے انتخابی عمل میں سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ایسا محسوس ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا اس وقت پیپلزپارٹی ہے۔‘

امیر جماعت اسلامی کراچی کے مطابق ’اگر پیپلز پارٹی اتنا کھل کر کھیل رہی ہے، جیتی ہوئی چیزوں کو ہار میں زبردستی تبدیل کر رہی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ اکیلے یہ کام کر رہی ہو۔‘

حافظ نعیم الرحمن کے مطابق ’آرمی چیف یہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اے پولیٹیکل رہیں گے اور سیاست میں دخیل نہیں ہوں گے۔ ایسا ہے تو پھر اس پر ہر جگہ عمل ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اگر میرا خدشہ غلط ہے تو یہ ان کے آئندہ عمل سے ہی ظاہر ہوگا‘۔

حافظ نعیم کے مطابق ’پیپلز پارٹی اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے اور وہ عوام کی وجہ سے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مراسم کی وجہ سے سمجھتی ہے، لیکن پیپلز پارٹی کو یہ نہیں پتا کہ یہ چیزیں بدل جاتی ہیں‘۔

’ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد نہیں آنی چاہیے تھی ‘

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے متعلق سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ’عمران خان کے خلاف عدم اعتماد نہیں آنی چاہیے تھی۔ جو جیت جائے اسے پانچ سال کا موقع دینا چاہیے۔ نواز شریف کو بھی وقت پورا کرنے دینا چاہیے تھا‘۔

حافظ نعیم الرحمن کے مطابق ’نوازشریف کو ہٹانا ہو یا بے نظیر ہو یا کوئی بھی وزیراعظم ہو ان کو ہٹانے میں اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان تو اب انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا نام نہیں لیتے لیکن ان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا‘۔

حافظ نعیم الرحمن سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان کی 75 سال کی تاریخ ہے جس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ، سول اسٹیبلشمنٹ اور اب عدلیہ بھی اس میں کردار ادا کرتی ہے۔ وہی تو فیصلہ دے رہی ہے۔ عدلیہ کے بھی پیمانے الگ الگ ہیں۔ کسی کے لیے رات کو 12 بجے عدالت کُھل جاتی ہے اور کسی کیس کے لیے سپریم کورٹ کے پاس وقت ہی نہیں‘۔

’مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جارہی ہے‘

ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے اتحاد سے متعلق حافظ نعیم نے کہا کہ کہ ’کون ہے جو وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کو ساتھ بٹھا سکتا ہے؟ کس میں یہ صلاحیت موجود ہے؟ کون ہے جو ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگانے والوں اور ایک دوسرے کا منہ نہ دیکھنے والوں کو اکٹھا کر سکتا ہے؟ لیکن یہ زیادہ دیر اکٹھے رہ نہیں سکتے۔‘

حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ ’ایم کیو ایم اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ ایک بار پھر غلطی کر رہی ہے، ایک بار پہلے بھی مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کی جا چکی ہے اور اس کا اثر کراچی کے عوام  پر پڑا ہے‘۔

الطاف حسین کی پاکستان کی سیاست میں واپسی سے متعلق امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ ’الطاف حسین کی واپسی کا کوئی اشارہ نہیں ملا لیکن ہمارے ہاں فیصلے کا کچھ پتا نہیں چلتا‘۔

حافظ نعیم الرحمن کہتے ہیں کہ ’اسٹیبلشمنٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ زیرو جمع زیرو کرکے سو کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ بھی بدنام ہوگی۔ انہیں اس کام سے گریز کرنا چاہیے‘۔

’کراچی کے لیے سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں‘

میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ’پہلے 11 یو سیز کے ضمنی انتخابات کروائیں جائیں، جب ہاؤس پورا ہوگا تو پھر میئر کراچی کے انتخابات کا مرحلہ آئے گا‘۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ’ہم پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں سے بات کر سکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ شہر کی ترقی کے لیے سب جماعتیں اکٹھی ہوں اور مل کر شہر کی ترقی کے لیے کام کریں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp