وی نیوز ایکسکلوسیو: پارلیمنٹ ایک متروک ادارہ بن چکا ہے،سینیٹر رضا ربانی

اتوار 19 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے وی نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ہے ’پاکستان اس وقت سنگین بحران کا شکار ہے‘۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اپنی قوت مزاحمت کے ذریعے پاکستان کو اس بحران سے نکالیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے مطابق ’پارلیمنٹ جو آئینی اعتبار سے ایک سپریم ادارہ ہے اس وقت متروک فورم بن چکا ہے اور اہم نوعیت کے معاملات جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کے ساتھ مذاکرات، ان کی سابق فاٹا میں آبادکاری یا آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات پارلیمان کے علم میں نہیں لائی جاتیں۔ اور عملی طور پہ پارلیمان ایک متروک ادارہ بن چکا ہے‘۔

’انتہائی اہم امور سے متعلق معلومات میڈیا کے ذریعے پہنچتی ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ’ان انتہائی اہم امور کے بارے میں ان کے پاس جو بھی معلومات پہنچتی ہیں وہ میڈیا کے ذریعے ہی پہنچتی ہیں‘۔

سینیٹر رضا ربانی کے مطابق ’ہم نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی درخواست کی تھی کہ طالبان کے ساتھ جو جنگ بندی معاہدہ ہوا ہے اس کے شرائط و ضوابط اور تفصیلات ہمارے سامنے لائی جائیں جو کہ نہیں لائی گئیں۔

ہمیں سابق وزیراعظم کے ایک بیان سے پتا چلا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر کو سابق فاٹا میں آباد کرنے کی بات چل رہی تھی۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے کی شرائط سے بھی پارلیمان کو مکمل طور پر لاعلم رکھا گیا‘۔

’سب ہی پارلیمنٹ کو اس حال میں پہنچانے کی ذمہ دار ہیں‘

جناب رضا ربانی نے کہا کہ ’اس وقت پارلیمان کی خود مختاری پہ سوال نہیں اٹھا بلکہ پارلیمان ایک متروک ادارہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی تو ان کو لگتا تھا کہ پارلیمان کو اس حال میں پہنچانے کے لیے پی ٹی آئی ہی ذمے دار ہے لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ ساری سیاسی جماعتیں جس میں ان کی اپنی جماعت بھی شامل ہے وہ سب اس کے ذمے دار ہیں‘۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ کو غیر فعال بنانے میں سب سے زیادہ کردار انتظامیہ کا ہے۔ انتظامیہ پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور یہ صرف اس حکومت کی بات نہیں بلکہ جو پچھلی حکومتیں رہیں یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے۔

پارلیمنٹ میں کوئی بڑا پالیسی بیان نہیں دیا جاتا۔ وزیراعظم اور وزرا اس کوزیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی تقریب کے اندر یا پریس کانفرنس کے ذریعے بڑا پالیسی بیان دیں۔ جب کہ دنیا کی تاریخ یہی ہے کہ بڑا پالیسی بیان سینیٹ یا قومی اسمبلی کے فلور سے جاری کیا جاتا ہے‘۔

اختیارات کی رسہ کشی چل رہی ہے

میاں رضا ربانی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ’اس سارے بحران کی بنیادی وجہ آئین پر عملدر آمد نہ ہونا ہے۔ آئین کے اندر تمام اداروں کے اختیارات اور حدود کا تعین کیا گیا ہے اور آئین میں واضح طور پر مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی ایک مثلث قائم ہے۔

چونکہ آئین پرعملدر آمد نہیں ہو رہا اس کی وجہ سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت ریاست کے تین مرکزی ستونوں میں اختیارات کی رسہ کشی چل رہی ہے اور ہر ایک دوسرے کے دائرہ کار میں آ کے اپنا کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘۔

قانون سازی عدالتی سطح پر ہو رہی ہے

میاں رضا ربانی نے کہا ’عدلیہ آئین سازوں کے اصل منشا سے ہٹ کر عدالتی سطح پر قانون سازی کر رہی ہے۔ قانون سازی کے اصل منشا سے ہٹ کر عدلیہ اس بات کو دیکھتی ہے کہ ان کے خیال میں کون سا اخلاقی اصول درست ہے اور اسی بات کو عدالتی احکامات کے اندر فوقیت دی جاتی ہے‘۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح قانون سازی سے مطابقت نہیں رکھتی

سپریم کورٹ کی جانب سے اراکین پارلیمان کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے عدالتی فیصلے پر بات کرتے ہوئے میاں رضاربانی کا کہنا تھا کہ ’وہ بھی اس عدالتی مقدمے میں پیش ہوئے تھے اور عدالتی فیصلے کے اندر آرٹیکل 63 اے کی جو تشریح کی گئی وہ اٹھارویں ترمیم میں کی گئی قانون سازی سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس میں بہت سے مطالب اخذ کیے گئے۔

انیسویں ترمیم سے توازن بگڑ گیا

اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ جب اٹھارویں ترمیم ہو رہی تھی تو اس بات پہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور کیا گیا تھا۔

بین الاقوامی مروجہ قوانین کی طرح یہاں بھی ججوں کا تقرر پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جائے لیکن پھر ایک رئیلسٹک اپروچ لی گئی اور سوچا گیا کہ اس وقت نہ ادارے نہ معاشرہ اس بات کے لئے تیار ہے کہ ججز کسی پارلیمانی کمیشن کے سامنے پیش ہوں۔ لہٰذا ایک درمیانی راستہ تجویز کیا گیا جس میں جوڈیشل کمیشن تھا اور اس کے ساتھ پارلیمنٹری کمیٹی تھی۔

بدقسمتی سے انیسویں ترمیم لائی گئی جس کی وجہ سے توازن بگڑ گیا اور اس کے بعد پھر انیسویں ترمیم کے بعد جو کچھ پٹیشنز فائل کی گئیں ان کی ججمنٹس نے پارلیمانی کمیٹی کو بالکل صفر کر دیا اور اس کا کوئی کردار نہیں رہا۔

اب پارلیمانی کمیٹی نے اپنے رولز بنائے ہیں کچھ تھوڑا سا وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کی ابھی بھی پارلیمانی کمیٹی بنانے کا جو اصل منشا تھا وہ پورا نہیں ہوا‘۔

 عوام ملک کو اس بحران سے نکال لیں گے

میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے عوام کی قوت مزاحمت بہت زیادہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ملک کو اس بحران سے نکال لیں گے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp