مایوس قیدی کا نواز شریف کے نام پیغام

جمعہ 12 اپریل 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’عیدالفطر کے بعد قیدی نمبر 804 رہا ہوجائے گا۔‘ ایک بار  پھر یہ دعویٰ ٹرینٖڈنگ پر ہے۔ لیکن اب محلے میں تھڑوں پر بیٹھ کر تاش کھیلتے ہوئے بابے بھی اس دعویٰ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ دراصل عمران خان کے جیل میں قید ہونے کے بعد، باقی ماندہ تحریک انصاف کے رہنما اس قسم کے دعوے مسلسل کر رہے ہیں۔ تاہم اب تاش کھیلنے والے بابے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی رہنما اپنے کارکنوں کو حوصلہ دینے کے لیے ہی ایسے دعوے کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عمران خان خوب مقبول ہیں لیکن قبول بالکل بھی نہیں ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے دعوے محض طفل تسلیاں ہی ہیں۔

بابے ٹھیک کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنان جان کی امان دیں تو عرض کروں کہ ان کے عظیم الشان رہنما بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے بہت سے دعوے کرتے تھے لیکن وہ بھی غلط ہی ثابت ہوئے۔ انھوں نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جیل جانے تک بہت سے دعوے کیے لیکن وہ بھی درست ثابت نہیں ہوئے۔

کیا باقی ماندہ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سے زیادہ عالم و فاضل ہیں، زیادہ عاقل و بالغ ہیں، زیادہ باریک بین و دور اندیش ہیں کہ ان کے دعوے درست ثابت ہوں گے؟ ان رہنماؤں کو اڈیالہ جیل کے اندر جھانکنے کی اجازت مل جائے تو وہ دیکھیں گے کہ جیل میں بیٹھ کر جناب عمران خان اب حساب کتاب کرتے ہوئے اپنے غلط اندازوں اور نادرست چالوں کے بارے میں حقائق کو تسلیم کر رہے ہیں۔ آج کل وہ شیخ ابراہیم ذوق کے یہ اشعار گنگناتے رہتے ہیں:

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

اور

ہم سے بھی اس بساط پہ کم ہوں گے بد قمار

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

چھ اپریل کو اڈیالہ جیل، راولپنڈی میں عمران خان نے میڈیا سے جو گفتگو کی، اس سے بہت سی خبروں کی تصدیق ہوتی ہے۔ سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم ہونے کے بعد بانی چیئرمین نے بار بار فوج سے رابطہ کیا لیکن ہر بار انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان کا پیغام کوئی بڑا افسر وصول کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ان مسلسل ناکامیوں کے نتیجے میں اب عمران خان سخت مایوسی اور جھنجھلاہٹ کے شکار ہیں۔

جب شدید مایوسی غالب آتی ہے تو وہ اعلان کرتے ہیں کہ انھوں نے مزاحمت کا راستہ چن لیا ہے۔ پھر مایوسی کا اثر کم ہوتا ہے تو مفاہمت کی سوچ کے ساتھ کسی بڑے افسر کی طرف ایلچی بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اس بے چارے ایلچی کو گیٹ سے بہت پہلے بیرئیر پر ہی روک لیا جاتا ہے۔ اور واپس بھیج دیا جاتا ہے۔

 گزشتہ برس جون میں بھی غیرملکی خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ سے ایک انٹرویو میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے فوج سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں جواب نہیں ملا۔

پچھلے ہفتے انھوں نے میڈیا سے جو گفتگو کی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب انھیں موجودہ عسکری قیادت سے کوئی امید باقی نہیں رہی۔

عمران خان کا کہنا تھا’ ’آرمی چیف نے ہی میری بیوی کو ٹارگٹ کیا جس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مجھے اور میری بیوی کو کچھ ہوتا ہے تو جنرل عاصم منیر ذمہ دار ہوں گے۔‘

عمران خان نے کہا ’جنرل عاصم منیر نے مجھے توڑنے کے لیے توشہ خانہ ریفرنس میں بشریٰ بی بی کو سزا دلوائی۔ لندن پلان عاصم منیر اور نواز شریف کے درمیان تھا۔ اس کے لیے ججز کو بھی ساتھ ملایا گیا۔آئی ایس آئی نے ججز کی تقرریاں کروائیں۔اس وقت بادشاہ پیچھے بیٹھا ہوا ہے اور محسن نقوی وائسرائے بنا ہوا ہے۔ شہباز شریف فیتے کاٹتا پھر رہا ہے۔ اس کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔ ساری قوم کو پتہ ہے کہ عاصم منیر ملک چلا رہا ہے۔ جنرل عاصم منیر کی تقرری سے پہلے عارف علوی کے ذریعے پیغام بھیجا تھا کہ ہم تمہارے مخالف نہیں ہیں۔ میں نے عارف علوی کے ذریعے عاصم منیر کو ٹیلی فون کروایا تھا کہ مجھے اس کے لندن پلان کے بارے میں معلوم ہے۔ جنرل عاصم منیر کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ایک پلان انسان بناتا ہے اور ایک اللہ کامیاب اللہ کا پلان ہوتا ہے۔‘

بانی چیئرمین نے گفتگو میں موجودہ عسکری قیادت کے بارے میں جس انداز میں گفتگو کی اور الزامات عائد کیے۔ اس کے بعد بعض خبر نویس اپنی خبریں اور بہت سے پی ٹی آئی رہنما اپنے منہ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ معاملات طے پا گئے ہیں، عمران خان اس شرط پر رہا ہوجائیں گے کہ وہ باہر آکر سیدھے زمان پارک یا بنی گالہ میں جائیں گے اور وہاں بیٹھ کر صرف اور صرف مثبت سیاست کریں گے۔

قیدی نمبر 804 رہا نہیں ہوگا، پھر عید کی چھٹیوں کے بعد کیا ہوگا؟

ممکنہ طور پر اپوزیشن اتحاد قائم ہوگا۔ اور اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو کوئی ریلیف نہ دیا، ریلیف کا صرف خواب ہی دکھایا تو ممکنہ اپوزیشن اتحاد ایک ایسی  تحریک چلائے گا جس کے نتیجے میں سارا خسارا مسلم لیگ ن کے حصے میں آئے گا۔

اڈیالہ جیل میں میڈیا سے ہونے والی عمران خان کی گفتگو سے اس کہانی کی بھی تصدیق ہوئی کہ ایوان اقتدار سے نکالے جانے کے بعد وہ جنرل باجوہ سے ملے تھے۔ اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ نیوٹرل نہ رہیں بلکہ انھیں واپس ایوان اقتدار میں لے آئیں،  انھوں نے جنرل باجوہ کو کچھ پیشکشیں کی تھیں تاہم جنرل کے اپنے ہاتھ میں کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ اس مرحلے پر عمران خان کی مدد نہیں کرسکتے تھے، سو نہ کرسکے۔ عمران خان نے کیا کہا، انہی کے الفاظ میں جان لیجیے:

’میں نے کبھی فوج سے لڑائی نہیں کی۔ جنرل باجوہ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ میں جنرل باجوہ کو ڈی نوٹیفائی کر سکتا تھا لیکن نہیں کیا۔ ہم نے اس سب کے باوجود بھی جنرل باجوہ سے ملاقات کے لیے کمیٹی بنائی۔ حکومت گرانے کے باوجود دو مرتبہ جنرل باجوہ سے مل سکتا ہوں تو کسی سے بھی مل سکتا ہوں۔‘

ان کے آخری جملے میں ایک پیغام ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ پیغام نواز شریف کے نام ہے۔ اب اس پیغام کا جواب میاں نواز شریف کیا دیتے ہیں، اس کے لیے کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے گا، ممکن ہے کہ جب نواز شریف جواب دیں تو وہ بہت سوں کے لیے حیران کن ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp