عالم برزخ میں پاکستانیوں کے لیے مخصوص ٹھکانہ اسلام پورہ ہے۔ مشال خان کو یہاں آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک دن فرشتے نیا حکم نامہ لیے پہنچ گئے۔ مشال کو اسلام پورہ سے دور ایک جزیرے پر رہائش الاٹ کر دی گئی تھی۔ کیونکہ سیکورٹی پر مامور فرشتوں کو خدشہ تھا کہ زمین پر پیش آنے والا واقعہ کہیں پھر سے دہرایا نہ جائے۔ سو انہوں نے پاکستانیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مشال کو یہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔
اس کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ عالم برزخ میں مشال کے قتل پر کچھ پاکستانیوں نے شدید احتجاج کیا اور فرشتوں سے زمین پر ایکشن لینے کو کہا۔ فرشتے ایکشن لینے سے تو رہے لیکن مظاہرین کے اکثریتی ہم وطنوں نے اس احتجاج کو قومی و مذہبی عقائد پر حملہ تصور کیا۔ کچھ عرصہ گزرا تو قاتلوں کے رشتہ دار مشال کی نئی رہائش گاہ کے قریب منتقل ہونا شروع ہو گئے۔
اب وہ دن بھر مشال کے ساتھ بحث مباحثہ کرتے اور کسی طرح سے اُس سے ایسے الفاظ اگلوانے کی کوشش کرتے جس سے انہیں فتنہ پیدا کرنے کا موقع مل سکے۔ مشال بھی اب کی بار زیادہ ہوشیار تھا اس لیے اس نے مقامی تھانے میں ان شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی درخواست دی۔ البتہ، تھانے کے اہلکاروں نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے باری باری محلے داروں کو بلا کر خوب بے موسمی عیدی وصول کی۔ جب مہینے کا ٹارگٹ پورا ہو گیا تو آخر میں مشال کو بلا کر احتیاطی تدابیر پر مبنی ایک ورقہ تھما دیا تاکہ کاغذی کارروائی مکمل ہو جائے۔
چند مہینے گزرے تو ایک دن ناموس مذہب کیلئے قائم ایک تنظیم کے ناظم نے بحث کے دوران غصے میں مشال پر ابلتی ہوئی چائے پھینک دی۔ دردناک موت سے گزر کر عالم برزخ میں پہنچنے والے مشال کیلئے گرم چائے بھلا کون سی بڑی مصیبت تھی، وہ یہ سب دیکھ کر مسکرانے لگا۔ جس پر ناظم صاحب نے ایک بار پھر مشال پر گستاخی کا الزام لگا دیا۔ قریب تھا کہ معاملہ بگڑ جاتا، اسی علاقے میں مقیم پنجاب پولیس کے ریٹائرڈ ایس ایس پی جہانگیر چشتی نے موقع پر پہنچ کر تنازع رفع دفع کرایا اور دونوں پارٹیوں کو دوبارہ تھانے سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
ان کے تھانے پہنچنے سے قبل ہی ویڈیو مقامی ایس ایچ او تک پہنچ چکی تھی، جنہوں نے اعلی حکام سے رہنمائی کے لیے رابطہ کیا۔ پولیس حکام نے فرشتوں کی کابینہ کے سامنے معاملہ رکھا جس پر فیصلہ کیا گیا کہ مشال کو دور دراز کے کسی علاقے میں بھیج دیا جائے جہاں اردو اور پشتو بولنے والا کوئی نہ ہو۔
رات کی تاریکی میں خفیہ راستوں سے گزر کر جب مشال کشتی پر سوار ہوا تو اس کے ساتھ محافظ فرشتے بھی موجود تھے۔ 2 دن سفر کرنے کے بعد جب وہ نئی دنیا میں پہنچے تو یہاں کسی انسان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ صرف چند فرشتے تھے جنہوں نے لکڑی کے بنے چار کمروں کے کیبن کی چابیاں مشال کے محافظوں کے حوالے کیں اور غائب ہو گئے۔ اس ایک منزلہ مکان کا اندرونی کمرہ مشال کو الاٹ ہوا جب کہ 2 بیڈرومز محافظوں اور ان کے سامان کی ملکیت قرار پائے۔ باہر کے کمرے کو مہمان خانہ قرار دیا گیا مگر اس کا استعمال محافظوں کی اجازت سے مشروط تھا۔ انجان جزیرے پر چند مکان اور بھی تھے مگر مکین کسی میں نہ تھا۔ مشال کے پوچھنے پر محافظوں نے اس نئے ٹھکانے کا نام پاک لینڈ بتایا۔
یہاں ہفتے کے ہفتے سامان آجاتا تو کھانے پینے کا خاص مسئلہ نہیں تھا۔ واحد کمی یہاں انسانوں کی تھی، جن سے بات چیت کر کے وقت بِتایا جا سکتا۔ محافظ فرشتوں سے وہ گفتگو کی کوشش کرتا تو اکثر ناں اور کبھی کبھار ہاں، ہوں سننے کو ملتی۔ شام ڈھلتے ہی ایک کرخت آواز میں اندر جا کر کنڈی لگانے کو کہا جاتا اور باہر نکلنے سے قبل اسے صاحب کی اجازت درکار ہوتی۔ چند ایک کتابیں اور افسانے جو جلدی میں نکلتے ہوئے وہ ساتھ لایا تھا اسے بھی سیکورٹی کلیرنس کے نام پر دبا لیا گیا ۔
سردیوں کے دن تھے اور وہ دوپہر میں دھوپ سینکنے کے لیے باہر نکل رہا تھا کہ اس نے محافظوں کو کسی نئے مہمان کی آمد کے بارے میں بات کرتے سنا۔ وہ کسی سری لنکن کی آمد کو لے کر پریشان تھے، جسے اسی طرح کے مقدمے میں ہجوم نے سزا سنائی تھی۔ پریانتھا کے غیر مسلم ہونے کے سبب محافظوں کو خدشہ تھا کہ پاک لینڈ پر اس کی آمد سے سیکورٹی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ انہوں نے اعلی حکام سے رابطے کا فیصلہ کیا۔ جنہوں نے فرشتوں کی کابینہ کے سامنے دوبارہ معاملہ پیش کیا۔ کابینہ نے انتہائی دانشمندی سے پاک لینڈ کے قریب موجود جزیرے سی لینڈ پر پریانتھا کمارا کو رہائش گاہ الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مشال تک اس معاملے کی خبر پہنچی تو پہلے وہ افسردہ ہو گیا۔ پھر اس نے دل ہی دل میں خود کو دلاسہ دیا کہ اگر قریبی جزیرے تک کوئی انسان پہنچ آیا ہے تو جلد پاک لینڈ پر بھی اسے کوئی ساتھی مل جائے گا۔ مشال کی ساتویں برسی قریب آئی تو اس نے محافظ فرشتوں سے خواہش ظاہر کی کہ اس کی پریانتھا سے ملاقات کرائی جائے۔ محافظوں نے اعلی حکام تک کئی روز گزرنے کے بعد جب درخواست پہنچائی تو برسی میں ایک دن رہ گیا تھا۔ اس پر اوپر والوں نے انتہائی دانشمندانہ حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس برسی پر ویڈیو کال کے ذریعے بات کرا دی جائے، اگلی بار ملاقات ہو جائے گی۔
اپریل کی 13 تاریخ کو جب مشال کی پریانتھا سے بات چیت کیلئے ویڈیو کال ملائی گئی تو دوسری طرف کا مائیکروفون کام نہیں کر رہا تھا۔ مشال نے ویڈیو آن دیکھ کر سلام کے لیے اپنی فریکچر زدہ انگلیوں والا ہاتھ ہلایا۔ تو دوسری طرف پریانتھا نے سلام کا جواب دینے کا ہاتھ اٹھایا مگر اس کے ہاتھ سے انگلیاں غائب تھیں۔
ابھی مشال اسی منظر کو دیکھ کر سکتے میں تھا کہ سگنل کم ہونے کے سبب ویڈیو کال منقطع ہو گئی۔ محافظ فرشتے نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ آج بڑے صاحب نے قریب کے جزیرے پر ہاؤسنگ سوسائٹی کے افتتاح کیلئے آنا ہے اس لیے جیمرز لگے ہوئے ہیں۔ سگنل بحال ہوں گے تو کل بات کرا دیں گے۔ جاؤ، اندر جا کر کنڈی لگا لو۔
پچاس برس بعد کا ایک منظر:
مشال کے چہرے پر زخموں کے نشان کی جگہ اب جھریوں نے لے لی ہے۔ البتہ اب اس کی تنہائی میں خاصی کمی آچکی ہے۔ پاک لینڈ میں ہجوم کے ہاتھوں نا کردہ جرائم کی سزا پا کر آنے والے افراد کی تعداداب ہزاروں میں ہے۔ جن کے لیے پہلے سے تعمیر شدہ مکانات کم پڑ چکے ہیں۔ ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی مدد سے یہاں نئی تعمیرات کی گئی ہیں جن میں بقدرِ ضرورت اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اُدھر اسلام پورہ کے کچھ مکین یہاں ہونے والی سرگرمیوں کے متعلق خاصے پریشان ہیں۔ وہاں آئے روز احتجاج بھی ہوتے ہیں جس میں پاک لینڈ پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ہفتہ پہلے ٹک ٹاک کے ایک معروف مبلغ نے پاک اور سی لینڈ کے بیچ رابطہ پُل پر دھرنے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق مظاہرین پاک لینڈ کے قریب پہنچ چکے ہیں اور سیکورٹی حکام نے پل پر کنٹینر لگا کر اسے دونوں اطراف کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے۔