اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سائفر کیس سے متعلق اپیلوں پر سماعت بدھ کو بھی جاری رہی۔بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، عثمان ریاض گل و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں
بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی، نعیم اقبال و دیگر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت میں پیش ہوئے، کمرہ عدالت میں سائفر کیس میں نامزد ملزم کے خاندان کے افراد سمیت پی ٹی آئی کی قیادت اور وکلا کی بڑی تعداد بھی موجود رہی۔
سماعت کے دوران سائفر کیس میں عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس عامر فاروق کے درمیان مکالمہ بھی ہوا ۔ جس میں سلمان صفدر نے کہا کہ بہت بڑی بڑی کتابیں آج آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہیں۔
حکومتی پراسیکیوشن ٹیم سے حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، جس میں پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی 3 لوگوں کے ساتھ ایک آڈیو سامنے آئی، شاہ محمود قریشی، اعظم خان اور اسد عمر بھی گفتگو میں شامل ہیں۔
پراسیکیوٹر کاکہنا تھا کہ ایف آئی اے نے اپنی ٹیکنیکل رپورٹ میں بتایا کہ یہ گفتگو کیا ہے؟ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے رپورٹ تصدیق کر رہی ہے کہ یہ گفتگو ہے۔
سامنے آنے والی آڈیو میں سائفر کے ساتھ کھیلنے کا تذکرہ ہے
اس پر پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ’سامنے آنے والی آڈیو میں سائفر کے ساتھ کھیلنے کا تذکرہ ہے۔ ایف آئی اے نے اس آڈیو کو ایگزبٹ کرکے ہی رپورٹ کردی تھی، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ان 4 افراد کی آڈیو ٹیپ کی رپورٹ ریکارڈ پر لایا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے آڈیو ٹیپ ملی جو سائفر پر گفتگو کررہے تھے، اس آڈیو میں کہا گیا کہ سائفر پر کھیلا جائے گا، وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایف آئی اے میں انکوائری رجسٹرڈ ہوئی۔
وزارتِ خارجہ کی بجائے وزارتِ داخلہ مدعی کیوں تھی، چیف جسٹس کا سوال
حامد علی شاہ کے دلائل پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وزارتِ خارجہ کی بجائے وزارتِ داخلہ مدعی کیوں تھی؟ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے۔
اس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ میں آگے چل کر اس سے متعلق عدالت کی معاونت کروں گا۔ سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے اکتوبر 2022 میں پہلی شکایت درج کرائی جب کہ ستمبر 2023 کو نئے سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی نے دوسری شکایت جمع کرائی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت دوسری شکایت دائر کی گئی
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مطلوبہ ضرورت پوری کرنے کے لیے دوسری شکایت دائر کی گئی، 16 اگست 2023 کو ایف آئی اے نے بانی پی ٹی آئی کا جسمانی ریمانڈ مانگا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
حامد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ’16 اگست کو بانی پی ٹی آئی کو گرفتار کیا گیا، شاہ محمود قریشی کو 19 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا، 3 اکتوبر 2023 کو ملزمان کے خلاف چالان جمع کروایا گیا۔
ملزمان پر عائد فردِ جرم ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دی
23 اکتوبر کو ملزمان پر فردِ جرم عائد کی گئی جو ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دی، 13 دسمبر 2023 کو دوسری بار فردِ جرم عائد کی گئی، انکوائری کے دوران معلوم ہوا کہ سیکشن 5 اور 9 کی خلاف ورزی کی گئی۔ انکوائری کی بنیاد پر ایف آئی آر 2023 میں درج کی گئی۔
پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے مزید کہا کہ ’آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت 15 اگست 2023 کو ایف آئی آر درج کی گئی 16اگست کو بانی پی ٹی آئی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
23 اکتوبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کر دی
حامد علی شاہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ 3 اکتوبر 2023 کو چالان جمع کرایا گیا، 23 اکتوبر 2023 کو بانی پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جیل ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔
انہوں نے عدالت کی معاونت کرتے ہوئے مزید بتایا کہ پہلے مرحلے میں 17 سماعتیں ہوئیں اور 3 گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے جب کہ 21 نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔