وی ایکسکلوسیو: عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے ساتھ بھی دیا ہوگا: مفتاح اسماعیل

پیر 20 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیرِ خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عمران خان کو وزیرِاعظم کے منصب سے ہٹانے میں امریکا کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ انہیں اپوزیشن نے ہٹایا اور فوج اس معاملے پر اپوزیشن کے خلاف نہیں تھی۔

وی نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال سے عمران خان کو ہٹانے میں فوج نے ساتھ بھی دیا ہوگا۔ جہاں تک مجھے ہٹانے کا تعلق ہے تو میں محض ایک وزیر تھا اور فقط ایک نوٹیفیکشن سے ہٹ گیا۔ مجھے ایک دن بٹھا کر انہوں نے کہا کہ استعفی دے دو اور میں نے دے دیا۔ میں تو وزیرِاعظم کی صوابدید سے کام کیا کرتا تھا۔’

انہوں نے کہا کہ جس طرح نواز شریف کو اقامے کی بنیاد پر عدالت نے نااہل کرکے ہٹایا وہ عدالتی مداخلت کی انتہا تھی۔

مفاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ‘عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا گیا جو اپوزیشن کا حق ہے۔ 2022ء میں برطانیہ میں بھی 2 وزائے اعظم عدم اعتماد کا شکار ہوئے لیکن انہوں نے سڑکوں پر جہاد شروع نہیں کیا’۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سب جانتے ہٰں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں ہاتھ ہے اور کس طرح خان صاحب کو لائے تھے’۔

‘عمران خان ایک اچھے سیاستدان ہیں’

مفتاح اسماعیل نے عمران خان کو ایک اچھا سیاستدان تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جتنا اچھا بیانیہ انہیں بنانا آتا ہے شاید ہی پاکستان میں کسی اور کو آتا ہو۔ جب انہیں ہٹایا گیا تو سب سے پہلے بیرونی سازش کی بات کہی گئی، حقیقی آزادی کی بات ہوئی اور پھر اندرونی سیاست، باجوہ صاحب کی سازش، پھر کہا کہ محسن نقوی صاحب کی سازش ہے، اور آخر میں کاروباریوں پر الزام لگادیا گیا۔

’وہ روز اپنا بیانیہ بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں بہت تضاد ہے۔ قانون جب ان پر لاگو ہوتا ہے تو یہ نہیں مانتے۔ میں نے خدانخواستہ یہ کبھی نہیں کہا کہ عمران خان اچھے لیڈر ہیں، ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ وہ اچھے سیاستدان ہیں۔‘

پاکستان کے وزیر خزانہ کا استعفی لندن میں کیوں لیا گیا؟

بطور وزیرِ خزانہ اپنے استعفی سے متعلق مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ لندن میں نواز شریف سے میٹنگ میں وزیرِاعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ ظاہر ہے وزیرِاعظم کی مرضی کے بغیر تو یہ نہیں ہوا۔

’مجھے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ نواز شریف کا تھا کیونکہ وہ پارٹی کے قائد تھے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہوتا تو جو ووٹ ہوتا ہے وہ پارٹی کے لیڈر کا ہوتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کا ووٹ نواز شریف کا ہے اور پی ٹی آئی کا ووٹ عمران خان کا ہے۔‘

‘اسحاق ڈار نے بھی وہی کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا’

پاکستانی معیشت پر بات کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے متعدد پالیسیوں سے متعلق غلطیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ روپے کی قیمت کو معاشی طاقت سمجھتے ہوئے کبھی ہم نے روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے بڑھایا اور کبھی ڈالر کی قیمت کو کم کیا۔

انہوں نے کہا کہ جس زمانے میں ہم دنیا سے قرض لے سکتے تھے اس زمانے میں ہم نے قرض لے کر مارکیٹ میں پیسا ڈالا۔ عمران خان کے دورِ حکومت کے آخری سال 80 ارب کی درآمدات جبکہ 31 ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں سے آنے والی ترسیلات زر 30 ارب ڈالرز تھی جبکہ ڈالر کا خسارہ ساڑھے 17 ارب ڈالرز تھا۔

‘جب آپ کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہوں تو ظاہر ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھے گی۔ ہمیں چاہیے کہ جب ڈالر کی قیمت بڑھے تو درآمدات کم کریں پھر برآمدات خود بخود بڑھیں گی۔‘

مفتاح اسماعیل کے مطابق موجودہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد وہی کوشش کی گئی جو 2013ء سے 2018ء میں کی گئی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ حتمی نتیجہ اخذ کیے بغیر ان کے مطابق ان کی گزارشات سچ ثابت ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر ہم تسلسل کے ساتھ دانشمندانہ فیصلے کرتے، چاہے وہ مشکل ہی کیوں نہیں ہوتے تو آج جب پیٹرول دنیا میں سستا ہوگیا ہے تو پیٹرول کی قیمت بڑھانے کی نوبت نہیں آتی اور نہ اتنی منہگائی ہوتی نہ شرح سود اس قدر بلند ہوتی۔ ‘میں سمجھتا ہوں کہ مشکل فیصلے کرلیے ہوتے تو اکتوبر اور نومبر سے بہتری آنے کا قوی امکان تھا۔‘

‘آئی ایم ایف سے رجوع شرمندگی اور افسوس کی بات’

آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ضمن میں مفتاح اسماعیل نے وی نیوز کو بتایا کہ عوام کے ساتھ زیادتی تو ضرور ہو رہی ہے لیکن وہ اس سارے قضیے میں آئی ایم ایف کو قصور وار نہیں گردانتے بلکہ 75 سالوں میں ہمارے حکمرانوں نے جو پالیسیاں دی ہیں اس کی روشنی میں اصل قصور وار وہ ہیں۔

مفتاح اسماعیل کے مطابق مفاد عامہ کی حفاظت پاکستانیوں کا کام ہے اور پاکستانیوں کی خدمت کرنا آئی ایم ایف کا کام نہیں۔ ’آپ بار بار کیوں جاتے ہیں آئی ایم ایف کے پاس؟ آپ کو آئی سی یو میں کیوں جانا پڑتا ہے اگر آپ معیشت بہتر چلا لیں تو آئی ایم ایف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی’۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش تک صرف ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا 40 ارب ڈالر لینے کے لیے۔ اسی طرح بھارت سمیت بہت سارے دوسرے ممالک بھی نہیں جاتے آئی ایم ایف کے پاس۔

’75 سالوں میں جتنی بار پاکستان آئی ایم ایف گیا ہے یہ شرمندگی اور افسوس کی بات ہے۔ اس پوری صورتحال کی ذمہ داری مجھ سمیت ہمارے تمام پالیسی سازوں پر ہے، ہم آئی ایم ایف کو ذمہ دار کیوں قرار دیتے ہیں؟

‘پاکستان کی ترقی کا ذمہ دار صرف پاکستان’

مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان ڈیڑھ سال میں 3 مرتبہ آئی ایم ایف سے امداد لے کر اپنے وعدوں سے انحراف کرتا رہا ہے جس پر پاکستان کے دوست ممالک کی بھی نظر ہے۔ انہوں نے پاکستان کو اس وقت قرضوں کی مد میں امداد کو اس مٹکے میں پانی بھرنے کے مترادف قرار دیا جس میں سوراخ ہوں۔

’کیا ہم اپنی مدد کرنا چاہتے ہیں؟ اگر اس قسم کی پالیسیاں ہوں گی کہ آپ کے پالیسی ساز ہر مرتبہ آئی ایم ایف سے پیسہ لیکر مکر جائیں تو آپ کے دوست ممالک بولیں گے کہ پہلے اپنے تیور تو ٹھیک کرو۔‘

سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستانی حکومت کو اپنے پالیسی اسٹرکچر اور اخراجات کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی عالمی تعاون کی امید رکھی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دنیا سے تعاون مانگ رہے ہیں اور اللہ نے چاہا تو یہ ہوجائے گا۔ مگر کبھی نہ کبھی یہ سمجھنا پڑے گا کہ پاکستان کی ترقی کا ذمہ دار صرف پاکستان ہے۔ کوئی دوست ممالک نہیں اور نہ ہی کوئی بیرونی مالیاتی ادارہ اس کا ذمہ دار ہے۔

‘سب اپنی انا کی جنگ لڑ رہے ہیں’

عمران خان کے کرپشن مخالف بیانیے سے متعلق مفتاح اسماعیل نے وی نیوز کو بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ خان صاحب یا کسی اور جماعت کے لیڈر کے ایجنڈوں میں کوئی فرق ہے۔ کرپشن کے الزامات تو ہر طرف لگ چکے ہیں۔

’اگر خان صاحب پر توشہ خانہ کے گفٹ بغیر اندراج کیے لینے کے الزامات نہیں ہوتے اور عثمان بزدار، فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر سمیت ان کے دیگر ساتھیوں پر کرپشن کے سنگین الزامات نہ لگے ہوتے تو ان کے کرپشن مخالف بیانیے کو بالکل فوقیت ملتی۔‘

مفتاح اسماعیل کے مطابق سچی بات یہ ہے کہ اس وقت لڑائی طاقت اور حکمرانی کی ہے۔ ان کے مطابق وہ نہیں سمجھتے کہ خان صاحب یا کسی اور جماعت کے لیڈر کے ایجنڈوں میں کوئی فرق ہو۔

’میں سمجھتا ہوں سب کا بیانیہ یا ایجنڈا ایک ہے۔ اگر خان صاحب وزیراعظم بنتے ہیں تو انہیں آئی ایم ایف میں جانا ہوگا کوئی اور بنتا ہے تو انہیں بھی جانا ہوگا بات یہ ہے کہ سب ایک دوسرے سے اپنی انا کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کرپشن کے الزامات تو ہر طرف لگ چکے ہیں۔‘

’نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف بیان دو گے تو چھوڑ دیں گے‘

عمران خان کی جانب سے 90 روز میں انتخابات کے مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ انتخابات 90 روز میں ہونے چاہئیں بلکہ اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو انہیں حکومت بھی ملنی چاہیے لیکن ساتھ ہی انہیں توشہ خانہ کیس میں جوابدہ بھی ہونا چاہیے۔

’جب ہمیں آپ بنا الزام کے 5، 5 مہینے جیل میں ڈالتے ہیں۔ جب آپ ہم سے کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف بیان دو گے تو چھوڑ دیں گے۔ فواد حسن فواد کو 19 ماہ، احد چیمہ کو 2 سال جیل میں رکھا تو پھر آپ کو توشہ خانہ کا جواب دینے بھی ضرور جانا چاہیے۔‘

انہوں نے سوال کیا کہ ’مجھے، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، احسن اقبال، خواجہ آصف کو بنا کسی گناہ کے جیل میں ڈالا تو وہ ٹھیک تھا؟ جب آپ مولانا عبد العزیز کی لال مسجد کے اوپر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھایا، یا بلوچ اور پشتون باغی یا ٹی ٹی پی پر تو پھر ہم سب کو ریاست کی بات ماننی چاہیے۔‘

کوکومو کے حوالے سے کوئی خوش خبری؟

مفتاح اسماعیل نے کوکومو کے پیکٹ میں بسکٹ کی تعداد بڑھانے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ’لمبا انتظار کرتے رہیں‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp