ایدھی ہوم جہاں شناخت اور نعمتوں سے محروم بچوں کو نیا جنم ملتا ہے

اتوار 19 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لاوارث بچوں کی پناہ گاہ ایدھی ہوم کے ملک بھر کے مراکز میں پانچ ہزار کے قریب بچے پرورش پا رہے ہیں جہاں انہیں تعلیم و تربیت کے علاوہ وہ سب کچھ بھی دیا جاتا ہے جو ماں باپ گھروں میں بچوں کو دے سکتے ہیں۔ بلقیس ایدھی مرحومہ کے فرائض نبھانے والی صباء ایدھی کے مطابق مالی مشکلات تو ہمیشہ رہی ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔

کراچی کے ایدھی ہوم میں اس وقت تقریبا 150 کے قریب بچے پرورش حاصل کررہے ہیں۔ ایدھی ہوم کے زینے پر چڑھتے ہی نظر ایک ایدھی جھولے پر جاتی ہے اور ساتھ ہی دیوار پر ایک تختی لگی ہے جس پر کسی زمانے میں بلقیس ایدھی مرحومہ نے لکھوایا تھا کہ ’قتل نہ کریں جھولے میں ڈالیں ایک گناہ کرکے دوسرا گناہ کیوں مول لیتے ہو جان اللہ کی امانت ہے‘۔

بظاہر ایک عام سا دکھائی دینے والا جھولا ایک بچے کی زندگی میں کتنی تبدیلیاں لے کر آئے یہ اس وقت نہ بچے کو پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی جھولے میں ڈالنے والے کو۔ اس جھولے میں بچے کو ڈالنے کے بعد ایدھی رضاکار اسے صباء ایدھی کے حوالے کردیتے ہیں اور  یوں اس لاوارث بچے کو جیسے نئی شناخت اور نیا مسکن مل جاتا ہے جہاں ماں باپ کے سوا سب کچھ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے ولدیت کا خانہ پر کرنے کی کچھ حد تک کوشش کی گئی ہے۔ ان تمام بچوں کے سرپرست اعلیٰ عبدالستار ایدھی مرحوم ہیں اب جب تک ایدھی ہومز میں بچے آتے رہیں گے تب تک عبدالستار ایدھی مر کر بھی زندہ رہیں گے۔

اس سادہ سے جھولے کے پاس سے گزرتے ہی جیسے جیسے قدم آگے کی طرف بڑھتے ہیں ویسے ویسے منظر تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ استقبالیہ پر موجود باجیوں کی چہل قدمی، پچوں کے پڑھنے کی آوازیں اور استانیوں کی محنت۔ کلاس رومز سے ہٹ کر دوسری جانب گائنی کے کمرے سے نئی زندگی کے وجود میں آنے کی آوازیں یعنی ایک چھت کے نیچے ویسے تو یہ چھوٹے چھوٹے کمروں کا ایک گھر ہے لیکن یہ ان بچوں کا اسکول بھی ہے کھیل کا میدان بھی، سونا، اوڑھنا اور بچھونا سب کچھ ہے یہ وہ گھر  ہے کہ جہاں حقیقی والدین ہیں اور نہ ہی سگے بھائی بہن لیکن ایک نومولود کو کیا پتا کہ اس سے کیا چھینا گیا اور اس کے بدلے اسے کیا ملا لیکن شاید بڑے ہوتے ہوتے اسے لگے کہ اس سے اگر بہت کچھ چھینا گیا تھا تو کافی کچھ لوٹ بھی آیا ہے۔

ایسی ہی کیفیت کا اظہار ایدھی ہوم میں پل کر بڑی ہونے اور پھر اپنے جیون ساتھی کے ساتھ گھر بسا لینے والی فاطمہ کچھ ان الفاظ میں کرتی ہیں کہ ’ہمیں یہ تو پتا نہیں کہ باقی گھروں میں کیا ہوتا ہے لیکن بڑی باجی (صباء ایدھی) نے جس طرح ہماری رخصتی کی اس سے احساس ہوا کہ یہی ہمارا سب کچھ ہے‘۔ فاطمہ آج ’میکے‘ آئی تھیں بالکل ایسے ہی جیسے عام لڑکیاں شادی کے بعد ماں باپ سے ملنے جاتی ہیں۔

بڑی باجی بڑے تپاک و گرمجوشی کے ساتھ فاطمہ سے ملیں اور خوشی خوشی بتانے لگیں کہ آج بیٹی اتنے دن بعد گھر آئی ہے۔ اس کے بعد جب پچوں کے اسکول کی چھٹی ہوئی تو وہ سسرال سدھار جانے والی اپنی بہن فاطمہ کو سلام کرنے قطار در قطار اپنی اپنی کلاسوں سے باہر آکر ہال میں جمع ہوگئے۔ بظاہر یہ چھوٹا سا ہال بچوں کا گراؤنڈ بھی ہے جہاں تمام باجیاں بچوں کے ساتھ بیٹھ کرخوش گپیاں کرتی ہیں اور بچے اس موقع پر اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل بھی رہے ہوتے ہیں۔

میٹھا در کے علاقے میں قائم بچوں کی رہائش کا انتظام عبدالستار ایدھی کی اہلیہ بلقیس ایدھی کی وفات کے بعد ان کی بہو صباء ایدھی نے سنبھال لیا تھا۔ صباء ایدھی لاورث بچوں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ پرورش اورتعلیم و تربیت سے لے کر شادی تک کے معاملات کو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ماں باپ دیکھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مالی مشکلات تو ہمیشہ رہی ہیں لیکن اس مہنگائی اور تنگ دستی میں بھی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کی اچھی پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں ایک قابل اور کامیاب انسان بھی بنایا جائے۔

 

ایدھی ہوم میں پلنے والے بھائی بہن آنکھوں میں امید لیے اچھے مستقبل کی طرف ایک ایک قدم بڑھاتے ہوئے کبھی نہ کبھی تو عبدالستار ایدھی کو ضرور یاد کیا کریں گے جنہوں نے ان ہزاروں گمناموں کو ایک نئی پہچان دی اور جنم دینے والوں کی جانب سے چھین لی گئی چھاؤں نئی شکل میں لوٹائی۔

ہال میں ایک گھنٹہ کھیل و تفریح کے بعد بچوں کے آرام کا وقت ہوجاتا ہے اور اس وقت ایدھی ہوم میں ایک سکوت طاری ہوجاتا ہے۔ ایدھی انتظامیہ یہ پرسکون ماحول اس لیے یقینی بناتی ہے تاکہ بچوں کے آرام میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp