آپ بیتی کیا ہے؟ اس کی سکہ بند تعریف تو جانے کیا ہوگی لیکن اگر کوئی شخص اپنے مشاہدات اور تجربات کے ساتھ کانوں سنی باتیں اپنے تبصرے اور تجزیے کے ساتھ پیش کردے تو میری نگاہ میں اسے بھی آپ بیتی ہی سمجھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سید امجد علی ثاقب (اخوت والے نہیں) کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’دید و شنید‘ اس تعریف پر پوری اترتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک ممتاز اہل علم ہیں جنہوں نے سول سروسز کے افسروں کو تربیت دینے والے ممتاز ادارے نیپا کراچی میں کئی دہائیوں تک خدمات انجام دیں۔
قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر صاحب کے بزرگ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اندرون سندھ کے شہر نواب شاہ منتقل ہوگئے۔ سندھ کے سیاسی انقلابات نے اس صوبے میں جو بجا طور پر باب الاسلام کہلاتا ہے، لسانی تقسیم بتدریج بہت گہری کردی ہے، اس لیے وہ خود کو پنجابی کہلائیں تو ان پر حرف گیری نہیں ہوسکتی، لیکن وہ اپنی شناخت اپنے آباؤ اجداد کے اصل وطن بخارا سے جوڑتے ہیں اور نہ سندھ کے نواب شاہ میں رہتے ہوئے بھی کوئی لسانی شناخت اختیار کرتے ہیں بلکہ اپنا تعلق ملت اسلامیہ کے ساتھ جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا قلم و قرطاس کے ساتھ رشتہ زمانہ طالب علمی سے ہے۔ انہوں نے اخبارات سے لے کر علمی جرائد تک سب جگہ لکھا۔ ان کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی شگفتگی ہے جو ان کی آپ بیتی کو اپنی ہم عصر آپ بیتیوں میں ممتاز کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی سے لے کر ملازمت کے حصول اور بعد کے زمانے کا احوال تفصیل سے لکھا ہے لیکن میرے جیسے قاری کے نزدیک مشاہیر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا احوال اہم ہے جس میں بڑے غیر معمولی انکشافات ملتے ہیں۔
مولانا جمال میاں فرنگی محلی ایک ممتاز عالم دین، مفسر اور تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما تھے۔ ان کے تعلق سے قیام پاکستان کے بارے میں کتاب میں ایک غیر معمولی انکشاف کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ ان کی عیادت کو گئے تو مولانا نے اپنی علالت کے باوجود تحریک آزادی کے بارے میں طویل بات چیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ نہرو چاہتا تھا کہ مسلمان علیحدہ ہو جائیں تاکہ وہ باقی ماندہ ہندوستان میں اپنی من مانی کر سکیں۔ مسلمانوں کو کیوں علیحدہ کردیا جائے؟ اس سوال کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ نہرو کے خیال میں مسلمان مسائل پیدا کرتے تھے جس کی وجہ سے کانگریس اور ہندوؤں کے لیے اپنے مقاصد کا حصول ممکن نہیں تھا۔ کانگریس اور نہرو جیسے قائدین کے حقیقی مقاصد کیا تھے؟ مولانا فرنگی محلی کے مطابق رام راجیہ کا قیام۔ کتاب کے مطابق ان کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کانگریس کا سیکولرازم اور نہرو کا سوشل ازم محض ڈرامہ تھا۔ حقیقت میں یہ سب لوگ ویسے ہی تنگ نظر اور متعصب فرقہ پرست تھے جیسے آج کا نریندرا مودی ہے یا آر ایس ایس کے انتہا پسند ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں یہ انکشاف چونکا دینے والا ہے، ممکن ہے کہ اس کی اثابت پر سوال اٹھائے جائیں لیکن بعض تاریخی حقائق اس کی تائید کرتے ہیں، خاص طور پر کیبنیٹ مشن۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم نے کیبنیٹ مشن کی تجاویز کو قبول کرلیا تھا۔ مؤرخین کے مطابق ہندوستان کو متحد رکھنے کی یہ آخری امید تھی لیکن نہرو کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کانگریس نے یہ تجاویز مسترد کردیں، یوں آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا اور 1940 میں اس نے قرار داد لاہور منظور کرکے اپنی منزل کا تعین کرلیا۔ یہ وہی انکشاف ہے، اسی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب ’جناح‘ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
پاکستان پے درپے لگنے والے مارشل لا کی حکومتوں کا زخم خوردہ ہے۔ ملک کا نصف حصہ بھی اسی آمرانہ طرز حکومت کی نذر ہوا۔ قائداعظم کے معتمد ساتھی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مولانا ظفر احمد انصاری کے تعلق سے بھی ایک اہم انکشاف اس کتاب میں موجود ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یحیٰی خان کے مارشل لا سے بچا جا سکتا تھا۔ ایسا ہو جاتا تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ بھی ہموار نہ ہوتی لیکن اس زمانے میں ایوب خان کے خلاف مہم جوئی کرنے والے بعض سیاستدانوں نے ایک بوڑھے اور تھکے ہوئے ڈکٹیٹر کو واپسی کا باعزت راستہ نہ دے کر مارشل لا کی راہ ہموار کردی۔
یہ کیاواقعہ ہے؟ قومی سیاست کی تاریخ سے متعلق کتابوں میں براہِ راست تو اس صورتحال پر کم ہی روشنی ڈالی گئی ہے لیکن ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ’پہلے فوجی راج کے 10 سال‘ میں بتایا ہے کہ ایوب مخالف تحریک کے پس پشت بعض خفیہ ہاتھ موجود تھے جنہوں نے مارشل لا کا راستہ روکنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔
کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھٹو صاحب مرحوم ہزارہ سے تعلق رکھنے والے دینی جماعت کے ایک رکن قومی اسمبلی کو بلیک میلر کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک بار قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ان کے مطالبات پورے نہ کریں تو وہ اسمبلی میں میرے خلاف تقریریں شروع کر دیتے ہیں۔
کتاب میں مولانا انصاری کے حوالے سے ایک اور دلچسپ انکشاف یہ ہے کہ وہ نہ موجودہ صوبوں کے حامی تھے اور نہ ون یونٹ کو درست تسلیم کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک کو چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تقسیم کردیا جائے، اس سے ملک کا اتحاد مضبوط ہوگا اور علیحدگی پسند قوتوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ مولانا انصاری کی گفتگو کی زیریں لہروں سے یہ خبر بھی ملتی ہے کہ صوبوں کی موجودہ شکل بھی ملک کے اتحاد کے لیے زیادہ مفید نہیں۔
گو یہ کتاب تکنیکی اعتبار سے ایک سرکاری افسر اور ماہر تعلیم کے مشاہدات ہیں کہ اپنے عہد کے تقریباً تمام تنازعات کے اسباب و علل کے بارے میں اس سے رہنمائی ملتی ہے جس سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ سندھ میں قوم پرستی نے زور کیسے پکڑا اور شہری سندھ میں جب پرتشدد قوم پرستی کو ہوا ملی تو اس کے نتیجے میں بدامنی اور دہشتگردی کی کیا صورت رہی اور کیا کیا جاتا تو ملک کا یہ خطہ کامل 3 دہائیوں تک جس تباہی سے دوچار رہا ہے، اس سے محفوظ ہو جاتا۔
ایسا نہیں ہے کہ کتاب میں سرکاری دفاتر اور سرکاری افسران کی باہمی کھینچا تانی اور جوڑ توڑ کی کہانیاں نہیں ملتیں، وہ بھی ملتی ہیں جنہیں پڑھ کر کبھی ہنسی آتی ہے اور دل غم سے بھر جاتا ہے۔ ہمارے سرکاری عہدیدار اگر ہمت کرکے اپنے مشاہدات قلم بند کرنے لگیں تو سچی بات یہ ہے کہ نہ صرف ہم عبرت کے لیے بہت سی باتیں جان سکیں گے بلکہ ان حادثات سے بچنے کے طریقے بھی سمجھ سکیں گے۔ ڈاکٹر سید امجد ثاقب نامور اہل قلم اور صاحب بصیرت شخصیت ہیں۔ ان کی زیر نظر کتاب ’دید و شنید‘ بھی ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اس کے باوجود نہایت ادب کے ساتھ ان کے لیے مشورہ ہے کہ اگر وہ کتاب پر ایک نظر مزید ڈال لیں تو وہ خلا جو قاری کو محسوس ہوتے ہیں پُر ہو جائیں گے اور وہ سوال جن کے جواب انہوں نے دانستہ نہیں دیے، وہ بھی قوم کے علم میں آ جائیں گے، یوں قوم کی امانت مکمل طور پر قوم کے سپرد ہو جائےگی۔