پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 30 لاکھ سے زیادہ آئی ٹی فری لانسرز اپنی سروسز بیرون ممالک مہیا کرتے ہیں لیکن ان ہنر مند افراد کے لیے بدقسمتی سے دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنے ملک میں رقوم کی وصولی نہایت مشکل کام ہے۔
مزید پڑھیں
جنوری 2023 میں نگراں وزیر آئی ٹی ڈاکٹر عمر سیف کی جانب سے پاکستانی فری لانسرز کو یہ ’خوشخبری‘ سنائی گئی تھی کہ پاکستان اور ’پے پال‘ کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے اور اب وہ جلد اپنے مغربی ممالک کے کلائنٹس سے بذریعہ ’پے پال‘ ادائیگیاں وصول کر سکیں گے۔
یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے اس بات کو واضح کیا گیا تھا کہ پے پال پاکستان میں براہ راست سروسز کے بجائے پے اونیئر کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے کام کرے گا۔
حکومت کا یہ دعوٰی کتنا درست ہے؟ اور اس سے فری لانسرز کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے؟
’پے پال‘ اور ’پے اونیئر‘ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے 2010 سے مخلتف فری لانس پلیٹ فارمز پر اپنی سروسز مہیا کرنے والے طاہر عمر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نگراں حکومت کی جانب سے جو خوشخبری سنائی گئی تھی وہ مارکیٹنگ اسٹنٹ سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔
پے پال اور پے اونیئر سے معاہدہ طے نہیں ہو سکا
انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ اعلان بڑے بڑے چینلز اور اخباروں میں تو چھپ گیا تھا کہ ’پے پال‘ کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے، بیشک اس معاہدے میں ’پے پال‘ ایک تھرڈ پارٹی کے طور پر تھا اس کے باوجود حکومت اس بار پھر ناکام ہوئی ہےکیونکہ ’پے پال‘ اور ’پے اونیئر‘ کے اشتراک سے بھی معاہدہ پوری طرح سے طے ہی نہیں ہو پایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان پے اونیئر میں ’پے پال ‘ کی انٹیگریشن اب تک ہوئی ہی نہیں ہے جبکہ وزارت کی جانب سے پریس ریلیز ایسے جاری کی گئی تھیں کہ جیسے معاہدہ ہو چکا ہو۔
’پے پال‘ اور ’پے اونیئر‘ سے معاہدہ محض مارکیٹنگ اسٹنٹ تھا
نگران حکومت میں آئی ٹی وزیر ڈاکٹر عمر سیف کے ساتھ پے اونیئر نے بھی کہا تھا کہ عالمی سطح پر وہ یہ فیچر متعارف کروائیں گے کہ ’پے پال ‘ سے ادائیگیاں پے اونیئر میں آئیں گی اور پھر وہاں سے لوکل بینکوں میں آجائیں گی لیکن نگراں حکومت کی جانب سے اس نظام کو متعارف کروائے جانے کی تاریخیں سامنے آتی رہیں لیکن ایسا ہوا کچھ بھی نہیں، اسی لیے یہ صرف ان کی جانب سے ایک مارکیٹنگ اسٹنٹ ہی تھا۔
آئی ٹی ماہر تمجید اعجازی وی نیوز سے گفتگو میں کیا کہتے ہیں؟
ٹیکنالوجی کے ماہر تمجید اعجازی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پے پال ‘ کو جب تک براہ راست پاکستان میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک لوگ اس کو استعمال نہیں کریں گے، بیشک حکومت ’پے اونیئر‘ کے اشتراک سے ہی اسے پاکستان میں کیوں نہ لے آئے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام سادہ سے عمل کی طرف جاتے ہیں اور اس طرح کی پارٹنرشپ سے عام بندے کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ پھر اس کو استعمال کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتے، جتنا نظام پیچیدہ ہوگا اتنا لوگ اس سے کترائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نگراں حکومت کا دعوٰی غلط ثابت ہو چکا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معاہدہ پورے طریقے سے کامیاب ہی نہیں ہو سکا تھا۔
معاہدہ طے پا جاتا تو فری لانسرز کو کیا فائدہ ہوتا؟
طاہر عمر کے مطابق ’پے پال ‘کی پاکستان آمد سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ’پے پال ‘، ’پے اونیئر‘ کے ساتھ معاہدہ کرکے انٹیگریشن دے گا، جس سے ان فری لانسرز کو تو کسی حد تک فائدہ ہوگا جن کے کلائنٹس ’پے پال ‘کے علاوہ کسی اور پلیٹ فارم کے ذریعے پے منٹس کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
’لیکن تیکنالوجی کے کاروبار سے وابستہ وہ حضرات جو اپنی ای کامرس ویب سائٹس کو پے منٹ گیٹ وے کے طور پہ استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کرسکیں گے، ڈیجیٹل کریئٹرز جو افیلیئٹ مارکٹینگ کرتے ہیں اور ان کے پاس صرف ’پے پال ‘کا آپشن موجود ہوتا ہے وہ اپنی وصولیاں نہیں کرپائیں گے۔‘
حکومت پے پال کے علاوہ باقی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرے، فری لانسرز
فری لانسرز کا مؤقف ہے کہ صرف ایک پے اونیئر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مزید کمپنیوں کو پاکستان میں متعارف کرایا جائے تاکہ مسابقت کی فضا قائم کی جاسکے اور صرف ایک کمپنی کی من مانی ختم ہو، حکومت فن ٹیک اسٹارٹ اَپس کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ پاکستان ان کمپنیوں پر انحصار کے بجائے مسائل کا حل مہیا کرسکے۔
حکومت ’پے پال ‘ اور دیگر کمپنیوں کی ریگولیٹری تقاضوں کو پورا کرے تاکہ کمپنیوں کو پاکستان میں خطرہ محسوس نہ ہو کہ اگر دھوکا اور فراڈ ہوتا ہے تو حکومتی قوانین کے تحت ایسے عناصر کو ڈھونڈنے میں نہ صرف ان کمپنیوں کے ساتھ تعاون کیا جائے بلکہ ایسے عناصر کے خلاف سخت قوانین کے تحت قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکے۔
یاد رہے کہ 2019 میں حکومت کی جانب سے امریکی کمپنی کو راضی کرنے کی کوششوں کے باوجود ’پے پال‘ نے پاکستان میں اپنی سروسز متعارف کروانے سے انکار کردیا تھا۔