ڈپٹی وزیر اعظم، پھڈا شروع ہوگیا

بدھ 1 مئی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس وقت  پاکستان جیسے غریب ملک میں کم از کم تین وزیر اعظم ہیں۔ ویسے تو ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں مگر یہاں تو تین، تین وزیر اعظم براجمان ہو چکے ہیں۔ تینوں کی اپنی اپنی خوبیاں، خامیاں ہیں۔

شہباز شریف جی حضوری سے کام چلاتے ہیں۔ انقلاب یا بیانیے کی فروعی بحث میں نہیں پڑتے۔ محسن نقوی راز ہستی جان چکے ہیں، تب ہی تو نگران وزیر اعلٰی پنجاب کے بعد  کرکٹ بورڈ کے چئیر مین اور وزیر داخلہ تک کے عہدے ان کے قبضے میں ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ شہباز شریف تو نام کے وزیر اعظم ہیں، اصل میں عنان حکومت تو محسن نقوی کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف تو اپنی کابینہ کے ساتھ جا کر پیاز، ٹماٹر کے بھاؤ پوچھ کر شتاب ہو جاتے ہیں۔ اور انہی دوروں کو عوامی خدمت کہہ کر خوش ہوتے ہیں۔

ان  دو وزراء اعظموں میں گاڑھی چھن رہی تھی۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے تھے کہ اچانک اسحاق ڈار اس تکون کا حصہ بن گئے۔ کسی کو  توقع نہیں تھی کہ اچانک اسحاق ڈار ڈپٹی وزیر اعظم کے غیر آئینی عہدے پر براجمان ہو جائیں گے۔ اب اختیارات کی میٹھی میٹھی جنگ میں شدت آ جائے گی اور ڈپٹی وزیر اعظم وجہ نزاع بنیں گے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ سے نکالا جا سکتا ہے مگر وزارت خزانہ اسحاق ڈار میں سے نہیں نکالی جاسکتی۔ ابتداء میں اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ کے لیے چنا گیا جس کا نہ انہیں کوئی تجربہ ہے نہ شوق۔ مختصر مدت کی وزارت میں وہ مسلسل للچائی ہوئی نظروں سے میاں اورنگزیب کی وزارت کو تکتے رہے۔ میٹنگوں میں اپنے لازوال تجربے کی بنا پر مشورے بھی داغتے رہے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وزیر خزانہ اپنی کرسی سے ذرا دیر کو اٹھیں اور یہ لپک کر ان کی نشست سنبھال لیں۔

 اسحاق ڈار اس صورت حال سے خوش نہیں تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ ہر میٹنگ  میں وزیر خارجہ موجود ہوتا ہے لیکن وہ وزیر خزانہ والی آن، بان، شان کہاں۔ چند روز میں حکومتی  کنفیوژن سامنے آنے لگی۔ وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ کے عہدے آپس میں باہم دست و گریبان ہونے لگے، عہدوں کی سرحدیں ختم ہونے لگیں اور نومنتخب کابینہ کے وزیروں کے سر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔

وزیر خزانہ خاموشی سے اپنا کام کر رہے تھے مگر یہ بات اسحاق ڈار کو پسند نہیں آئی۔ وہ وزارت خزانہ پر کنٹرول چاہتے اور اورنگزیب صاحب کو اپنا مطیع بنا کر رکھنا چاہتے تھے تو ا س کا حل سوائے ڈپٹی وزیراعظم بننے کے اور کچھ نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اسحاق ڈار اب پہلی دفعہ وزیر خزانہ بن گئے ہیں کیونکہ  ڈپٹی وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ جب چاہیں وزارت خزانہ کی میٹنگنز میں دندناتے ہوئے جا سکتے ہیں، انہیں احکامات دے سکتے ہیں، ان سے جواب طلب کر سکتے ہیں۔ یہ صورت حال موجودہ وزیر خزانہ کے لیے نئی ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہیں یا پھر کشتیاں ہی جلا دیتے ہیں۔

 الیکشن اور اس کے نتیجے میں آنے والے نتائج سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ہر وہ شخص جو نواز شریف کے قریب ہے یا نواز شریف کے نظریے سے متفق ہے اس کے لیے سسٹم میں کوئی جگہ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق ہوں یا جاوید لطیف، خرم دستگیر ہوں یا رانا ثنا اللہ سب سسٹم سے باہر بیٹھے ہیں۔ اسحاق ڈار ان میں ایک مختلف مثال تھے۔ ڈار صاحب کو نواز شریف سے وفاداری کا بھی زعم ہے اور وہ ارباب بست و کشاد کے قریب بھی سمجھے جاتے ہیں۔ لوگ سمجھے کہ اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنا کر ان کا ’دف‘ مار دیا گیا ہے مگر عین موقعے پر ڈپٹی وزیر اعظم کی چال ڈال کر بساط الٹ ہی دی گئی ہے۔

اسحاق ڈار کی موجودہ سسٹم میں ڈپٹی وزیر اعظم کی حیثیت سے موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں کشمکش کا دور شروع ہو چکا ہے۔ تعلقات میں پہلی دراڑ پڑ چکی ہے۔ اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب آنے والے دنوں میں گھمسان کا رن پڑے گا۔ اختلاف ، انحراف اور انکار کا بازار گرم ہوگا۔ قوتیں ایک دوسرے کو دھوبی پٹڑا لگائیں گی اور اس جنگ میں عوام کا کچومر نکل جائے گا۔

جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب انتخابات کا معاملہ ختم ہو چکا، لوگ ووٹ ڈال چکے، نتائج آچکے، نئی حکومتیں بن گئیں، عہدے بٹ گئے۔ اب صورت حال کو قرار آ جائے گا۔ اب سب اچھے بچے بن کر ملک  اور معیشت کی خدمت کریں گے۔ غریب کی غربت کم ہو گی، روپے کی قدر بحال ہو گی، ڈالر زمین پر آ جائے گا، پٹرول پانی کی طرح ارزاں ملے گا، بجلی گیس کے بل کم ہو جائیں گے۔ ایسا سمجھنے والے لوگوں کی خوش فہمی ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ میدان جنگ اب سجنے لگا ہے۔

جانے کیوں یہ گمان ہوتا ہے کہ معاملہ اب تھمے گا نہیں۔ اس ڈھلوان پر اب حکومت کو پھسلنا ہی ہے۔ اسحاق ڈار کی تعیناتی میں بہت سے پیغام چھپے ہیں۔ نواز شریف کے وفاداروں کو اقتدار سے دور رکھنے والوں کی پالیسی ناکام ہوئی۔ وزارت خزانہ کا عبوری عہد میاں اورنگزیب کی قیادت میں گزر گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا باہم شیر و شکر ہونے کا ارادہ ڈوب گیا، تعلقات میں بال آ گیا ہے، اعتماد کو ٹھیس پہنچ چکی ہے۔

یہ سب کچھ بہت جلدی ہوا ہے۔ خواہش تھی کہ اس دفعہ کوئی جم کر معیشت کی بحالی کی طرف توجہ دے، غریب کے بھلے کا سوچے مگر یہاں عہدوں کی جنگ ہی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اقتدار کی رسہ کشی سے فرصت ملے گی تو ان لوگوں کا بھی سوچا جائے گا جن کے نام پر ووٹ لیا اور جن سے دن دیہاڑے  ’وزیر اعظم نواز شریف‘ کا نعرہ لگا کر جھوٹ بولا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp