ملتان کے مزدور گرمیوں میں بارش کے بجائے دھوپ کی دعا کیوں مانگتے ہیں؟

بدھ 1 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملتان کے علاقے سورج میانی میں اینٹوں کا ایک بھٹہ کئی دنوں سے بند پڑا ہے۔ اس بھٹے سے چند قدم کے فاصلے پر ایک ٹوٹا پھوٹا چھوٹا سا مکان 65 سالہ محمد حبیب کا ہے، جن کی پوری زندگی بھٹی میں دہکتی اینٹوں کی طرح جلتے گزر گئی۔

گزشتہ 30 سال سے ممد حبیب اینٹوں کو پکانے والی بھٹی میں آگ جلائے رکھنے کا فرض نبھاتے ہیں۔ تاہم جلائی کے اس کام سے ملنے والی اجرت ان کے گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔

رہی سہی کسر بے موسمی اور غیر معمولی بارشیں نکال دیتی ہیں جن کی وجہ سے آئے روز بھٹہ بند رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارانِ رحمت کی دعائیں کرنے کے بجائے محمد حبیب اور ان کا گھرانہ تپتی دھوپ اور شدید گرمی پڑنے کی دعا کرتا ہے، کیونکہ اسی موسم میں ان کا روزگار چلتا ہے۔

پاکستان میں 18 سے 20 ہزار اینٹوں کے بھٹے موجود ہیں۔ ان بھٹوں کی زیادہ تر تعداد سندھ اور پنجاب میں ہے جن میں روایتی طریقہ کار کے مطابق اینٹیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ سارا کام وہ مزدور انجام دیتے ہیں جو دن بھر خاک میں نہا کر جب شام کو گھر لوٹتے ہیں تو ان کی جیب میں محض چند سو روپے ہوتے ہیں جو گھر چلانے کے لیے کافی نہیں۔ اگر یہ بھٹہ کسی وجہ سے بند ہو جائے تو مزدوروں کے گھر میں فاقے رقص کرنا شروع کردیتے ہیں۔

محمد حبیب کے گھر بھی آج کل بھوک کا راج ہے۔ انہوں نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ بارشوں میں انیٹیں بنانے کا کام ٹھپ ہوجاتا ہے۔ بھٹہ بند ہو تو مزدوروں کو دیہاڑی بھی نہیں ملتی۔ دن میں ایک ہزار اینٹیں بناؤ تو 1200 روپے ملتے ہیں۔ ’کبھی ہزار روپے دیہاڑی بن پاتی ہے تو کبھی نہیں۔ مہینے بھر میں 25000 روپے سے زیادہ آمدن نہیں ہو پاتی‘۔

پاکستان کی 95 فیصد آبادی محنت کشوں، مزدوروں اور متوسط طبقے پر مشتمل

دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد مزدور طبقے کو درپیش مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ پاکستان کی 95 فیصد آبادی محنت کشوں، مزدوروں اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے جن میں سے ایک گھرانہ محمد حبیب کا بھی ہے جن پر غربت کے باعث حیات تنگ ہے۔

بھٹی پر آگ اور دھواں پھونکنے سے محمد حبیب کے پھیپھڑے زخمی ہوچکے ہیں۔ وہ سرکاری اسپتال سے علاج کرا رہے ہیں جہاں مفت میں صرف معائنہ ہوتا ہے، دوا خود خرید کر کھانی ہوتی ہے جس کی اجازت حبیب کی جیب نہیں دیتی۔ وہ اپنے بجائے اپنی بیوی کی ادویات پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں جو جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لاکھ محنت کے باوجود بھی محمد حبیب اپنی اہلیہ کو مکمل علاج اور دوا کی سہولت مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔

’ٹی وی پر کارٹون دیکھنے کا شوق رکھنے والی مزدور کی بیٹی‘

اہلیہ کی بیماری کی وجہ سے ان کی 10 سالہ بیٹی کائنات ہی گھر سنبھالتی ہے۔ وہ اسکول بھی جاتی ہے اور گھر کی صفائی، کھانا پکانے اور برتن دھونے سمیت گھر کے دیگر کام بھی کرتی ہے۔ کائنات کے 2 سوتیلے بھائی معذور ہیں۔

’کائنات کو کارٹون دیکھنا اچھا لگتا ہے مگر ان کے گھر میں ٹی وی نہیں۔ وہ پڑوسیوں کے گھر کارٹون دیکھنے جاتی تھی مگر وہاں ان کے بچے اسے مارتے ہیں اور وہ روتی روتی واپس اپنے گھر لوٹ آتی ہے‘۔

قرض کے بوجھ تلے محمد حبیب کیا چاہتے ہیں؟

ہر سال یومِ مئی آتا ہے مگر محمد حبیب اور ان جیسے کروڑوں مزدوروں کے حالاتِ زندگی پر بنا کوئی فرق ڈالے چلا جاتا ہے۔ قرض کے بوجھ تلے محمد حبیب چاہتے ہیں کہ انہیں کہیں سے اتنے روپے مل جائیں کہ وہ سبزی کی ریڑھی یا اسی طرح کا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرکے زندگی کی گاڑی کو دھکا دے سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp