معروف اداکار، ڈائریکٹر اور رائٹر سہیل احمد اور کامیڈی شوز کے نامور اینکر آفتاب اقبال کے درمیان لفظی تکرار کا تو آپ کو علم ہی ہوگا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ احمد علی بٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سہیل احمد نے آفتاب اقبال کے رویے پر مختلف حوالوں سے تنقید کی۔ جواباً آفتاب اقبال نے بھی ایک طویل وی لاگ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر اور رائٹر بلند مقام کا حامل ہوتا ہے۔
20 اپریل کو اسی تناظر میں وی نیوز پر میرا کالم شائع ہوا تو سینئر تحقیقاتی صحافی برادرم عمر چیمہ نے فون کیا کہ اس موضوع پر وی لاگ کرتےہیں۔ روایتی صحافت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر موجودگی بھی آج کل صحافت کا لازمہ بن چُکا ہے۔ تقریباً تمام ہی صحافی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی متحرک نظر آتے ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ سہیل احمد اور ان کے خاندان سے میرا تعلق قریباً 25 برسوں پر محیط ہے۔ سہیل احمد کے برادرِ خورد مرحوم پروفیسر جنید اکرم گو کہ عمر میں بڑے تھے مگر ان سے’گوڑھا‘ یارانہ تھا۔
ان کے نانا بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کا رسالہ ‘پنجابی‘ 1953 سے شائع ہو رہا تھا۔ ایک زمانے سے اس کی اشاعت رُک چُکی تھی۔ جنید اکرم نے ‘پنجابی‘ کو دوبارہ شائع کرنا شروع کر دیا۔ جنید صاحب نے ڈاکٹر فقیر کے بہت سے ان چھپے کلام اور کام کو مرتب کیا اور ‘بزمِ فقیر‘ ادارے کے زیرِاہتمام شائع کیا۔ ‘بزمِ فقیر پاکستان‘ ایک علمی ادبی اور ثقافتی تنظیم تھی۔ اس ادارے نے کئی ادبی و ثقافتی تقاریب منعقد کروانے کے علاوہ بہت سی کُتب بھی شائع کیں۔
مارچ 1999 میں لاہور منتقل ہوا تو وہاں جانے سے پہلے ہی پنجابی علم و ادب سے وابستہ حلقوں میں کسی حد تک باہم شناسائی تھی۔ ایک روز، نامور کہانی کار اور ماہ نامہ ‘رویل‘ کے ایڈیٹر الیاس گُھمن کے دفتر ملنے گیا تو وہاں لندن میں مقیم پنجابی کے نامور لکھاری امین ملک کی پہلی کتاب کی تقریب رونمائی کی بابت پروگرام کی پلاننگ ہورہی تھی۔ کسی طرح مضمون پڑھنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہوگیا۔ 11 اپریل 1999 کو الحمراء کے 3 نمبر ہال میں تقریب منعقد ہوئی۔ یہ امین ملک مرحوم کی پہلی کتاب کی رونمائی تھی۔ امین ملک کی کتاب کے ساتھ لاہور میں میری بھی اولین رونمائی تھی۔ ہال لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ملک صاحب اور ان کی کتاب کی بھرپور پزیرائی تو ہوئی سو ہوئی۔ میرے مضمون کو بھی بہت پسند کیا گیا۔
جنید اکرم صاحب سے ادھر ہی پہلی ملا قات ہوئی۔انھوں نے مجھ سے میرا پڑھا گیا مضمون لے لیا اور اسے ماہ نامہ ‘پنجابی‘ میں شائع کر دیا۔ بعد ازاں میری کئی کہانیاں اور مضامین ‘پنجابی‘ میں شائع ہوئے۔
ریڈیو پاکستان کے اردو اور پنجابی ادبی پروگرامز کا انچارج بنا تو جنید اکرم کو پنجابی ادبی پروگرام ‘رچناب‘ کا کمپیئر بنا دیا۔ پہلے بھی معروف غزل گو شاعر ڈاکٹر یونس احقر اس پروگرام کے کمپئیر تھے۔ بعد ازاں بھی برس ہا برس جب تک یہ پروگرام میرے پاس رہا احقر صاحب اور جنید اکرم ہی اس پروگرام کے میزبان رہے۔
جنید اکرم سے مل کر ہم نے بہت سے نئے لکھنے والوں یا ان لوگوں کو بھی پروگراموں میں بلایا جنہیں عمومی طور پر مواقع نہیں ملتے۔ یہ سلسلہ صرف لاہور شہر تک محدود نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اردو اور پنجابی کے کئی مشترکہ مشاعرے بھی خاص دنوں میں منعقد کیے جن کی میزبانی جنید صاحب نے کی۔ ہمارے پروگراموں میں سلیم کاشر، اعزاز احمد آذر، شہزاد احمد، حفیظ تائب، ڈاکٹر ناہید شاہد، زاہد حسن، شفقت تنویر مرزا، ہجویری بھٹی، نیلما ناہید درانی اور کنول مشتاق جیسے نامور لکھاری بھی شرکت کرتے رہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنید صاحب سے تعلق مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ایک وقت آیا کہ انہوں نے مجھے ماہ نامہ ‘پنجابی‘ کا معاون ایڈیٹر بھی مقرر کر دیا۔ میں نے اور جنید صاحب نے ‘پنجابی‘ کے لیے نامور دانش وروں اور تخلیق کاروں کے انٹرویوز کرنے کا پروگرام بنایا۔ جیسا کہ اشفاق احمد، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، بانو قدسیہ۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سلسلے میں ہم صرف حنیف رامے اور افضل توصیف صاحبہ کا ہی انٹر ویو کر سکے۔
یہ موجودہ صدی کا اوائل تھا۔ سینما تیزی سے زوال پزیر تھا۔ لاہور کے سینما ہالز تیزی سے تھیٹر ہالز میں تبدیل ہو رہے تھے۔ سہیل احمد ٹی وی انڈسٹری میں اپنا سکہ جما چُکے تھے۔ اسٹیج پر اداکاری کے علاوہ وہ بعض ڈرامے خود لکھتے اور ڈائریکٹ بھی کرتے۔ ان دنوں سہیل احمد کا طوطی بول رہا تھا۔ آہستہ آہستہ مجرے اسٹیج ڈرامے کا حصہ بننے لگے۔ ایک وقت آیا کہ سہیل احمد مختلف پلیٹ فارمز پر ان مجراء نما ڈانسز پر بھی بولنے لگے۔
اداکارہ نرگس، ان کی بہن دیدار اورمیگھا وغیرہ بہت مشہور ڈانسرز تھیں۔ نرگس اور سہیل احمد میں ٹھن گئی۔ یہاں تک کہ نرگس نے مبینہ طور پر سہیل احمد کو دھمکیا ں بھی دیں۔ بہرحال سہیل احمد اپنے موقف پر قائم رہے مگر لچر جُگت بازی اور فُحش ڈانسز کے باعث ڈرامہ نہ رہا۔ گوجراں والا سے ایک خاتون پولیس کانسٹیبل صائمہ خان نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ وہ دورانِ مجرا کپڑے بھی اتارنا شروع ہو گئیں۔ آرٹ کے نام پر مجرے کی حمایت کرنے والیوں کے مقابلے میں جب لاہور کے اسٹیج پر صائمہ خان نمودار ہوئیں تو ان کو اپنی بلے بلے اور روٹی روزی کی فکر ہونے لگی تو ایک دن سرِ راہ صائمہ خان کی ٹانگوں میں گولیاں مار دی گئیں۔
جب پرائیویٹ چینلز آئے تو ان کا پیٹ بھرنے کے لئے بہت مواد درکار تھا۔ جیو ٹی وی پر ‘ہم سب امید سے ہیں‘ جیسا مقبول کامیڈی شو چل رہا تھا۔ دنیا ٹی وی پر ‘مس دنیا’ جیسا پروگرام شروع ہوا مگر جو پروگرام ‘ہم سب امید سے ہیں‘ کے مقابلے پرکھڑا ہوا وہ ‘حسبِ حال’ تھا۔
اس پروگرام میں میزبان آفتاب اقبال تھے اور ‘یملے’ کا کردار سہیل احمد نے ‘عزیزی‘ کے طور نہایت کامیابی سے نبھایا جبکہ خوب صورت اداکارہ ناجیہ بیگ اپنے سُریلے قہقہے بکھیر کر پروگرام کی خوب صورتی میں اضافہ کرتیں۔
‘حسبِ حال’ آفتاب اقبال کے کالم کا نام تھا جبکہ کالم میں انہوں نے ایک کردار عزیزی تخلیق کر رکھا تھا۔ یہی نام انھوں نے سہیل احمد کے کردار کو دے دیا اور آج یہ نام سہیل صاحب کے نام کا حصہ بن چُکا ہے۔
آفتاب اقبال بلا مبالغہ بہت با اعتماد اور صاحبِ علم پرفارمر ثابت ہوئے او سہیل احمد تو ویسے ہی ایک ور سٹائل اداکا ر، رائٹر اور ڈائریکٹر کے طور پر اپنا آپ منوا چُکے تھے۔
یہ ایسی بحث ہے کہ رائٹر، ایکٹر یا ڈائریکٹر میں سے بڑا کون ہوتا ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ ہر ایک کا اپنی اپنی جگہ ایک کردار ہوتا ہے جس کے بخوبی نبھانے سے ہی ایک اعلیٰ تخلیق سامنے آنے کا امکان ہوتا ہے۔ بہرحال آرٹ کی دنیا میں کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیم ورک سے ہی اچھا کام ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اکیلا بندہ کچھ نہیں کر سکتا۔ بہرحال فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ٹیم ورک ہوتا ہے یا اکیلے بندے کا کمال۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔