چھوٹا منہ اور چھوٹی بات

ہفتہ 20 اپریل 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عید کے دنوں میں میڈم نور جہاں کے نواسے احمد علی بٹ نے معروف ادا کار اور کامیڈین سہیل احمد کے ساتھ ایک ویڈیو پوڈ کاسٹ کیا۔ اس پوڈ کاسٹ میں سہیل احمد نے کامیڈی شوز کے میزبان (اینکر) آفتاب اقبال کے حوالے سے دو چار باتیں کر دیں۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بہت “شوخا” ہے۔ وہ اپنے والد صاحب اور خود کو ہی سب سے بڑا تخلیق کار سمجھتا ہے۔

جواباً آفتاب اقبال نے پورے ایک گھنٹے کا وی لاگ کھڑکا دیا جس کا ٹائٹل “بڑامنہ اور چھوٹی بات” بہت توہین آمیز تھا۔ اس میں ظاہر ہے وہ سہیل احمد کے بڑے منہ پر طنز کر رہے تھے۔ اس وی لاگ میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ بلا شبہ سہیل احمد بڑے فن کار ہیں مگر کسی پروگرام کا ابا رائٹر اور ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ خود کو انھوں نے دانش ور بھی قرار دیا۔ یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اردو اور انگریزی کے مہا کالم نگار تھے۔

غیر جانب دارانہ طور پر دونوں شخصیات کی فن کارانہ حیثیت کا تقابل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سہیل احمد نے مسلسل محنت اور اپنی بے پناہ فن کارانہ صلاحیتوں کی بنا پر فن کی دنیا میں ایک منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان کا اصل نام سہیل اکرم ہے۔ ان کے والد صاحب گوجرانوالہ کے معزز کشمیری خاندان کے فرد تھے۔ وہ ڈی ایس پی کی حیثیت سے محکمہ پولیس سے ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کی شہرت ایک سخت اور ایمان دار افسر کی تھی۔

سہیل احمد کے نانا اپنے وقت کے معروف شاعر تھے۔ پنجابی زبان و ادب کی خدمت کی بنا پر ان کی زندگی میں ہی انھیں بابائے پنجابی کا خطاب مل چُکا تھا۔ پاکستان میں پنجابی کا پہلا رسالہ “پنجابی” بھی انھوں نے ہی شروع کیا۔ ان کی تحریک پراپنے وقت کے بڑے بڑے نامور لوگ “پنجابی” رسالے کے لیے لکھتے رہے۔ جیسے نوائے وقت کے بانیوں میں سے ایک حمید نظامی، عبد المجید سالک اور کئی دیگر نامور لوگ پنجابی لکھنے کی طرف آئے۔ خود انھوں نے اس وقت کی مروجہ تمام اصناف میں شاعری کی۔ ان کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ انھوں نے اس وقت پنجابی زبان و ادب کا علم بلند کیا جب پاکستان بننے کے بعد صورتِ حال یہ تھی کہ پنجابی کو سکھوں کی زبان کہا جاتا۔ لوگ پنجابی کا نام لینے سے بھی کتراتے تھے۔ حب الوطنی کا ایک نام نہاد بخار اس شکل میں موجود تھا کہ اردو کے علاوہ دیگر قومی زبانوں کو علاقائی کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اکیلے کا اتنا کام اور نام ہے کہ سارے پنجابی زبان و ادب کے لوگوں کے نزدیک متفقہ طور پر وہ “بابائے پنجابی” تھے اور ہیں۔

سہیل احمد چار بھائی ہیں اور سب نے اپنی زندگی اپنا نمایاں مقام بنایا۔ بڑے بھائی جاوید اکرم روزنامہ خبریں گوجرانوالہ کےطویل عرصہ بیورو چیف رہے ہیں، روز نامہ خبریں میں طویل عرصہ ان کا کالم “پنچایت” کے نام سے چھپتا رہا ہے۔ پنجابی چینل “اپنا” پر “کُلی فقیر دی” کے نام سے وہ ایک پروگرام کرتے رہے ہیں۔ یہ پروگرام بھی کافی مشہور ہوا۔ ان سے چھوٹے اورنگ زیب بطور اردو کے پروفیسر کے ریٹائرڈ ہوئے۔ سہیل سے چھوٹے جنید اکرم اردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تھے جنھوں نےخرابیِ صحت کی بنا پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ تقریباً دو سال قبل وہ طویل عرصہ گردوں کی بیماری کا شکار رہنے کے بعد وفات پا گئے۔ جنید اکرم 80 کی دہائی کے آخر میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ وہ یونیورسٹی کی علمی ادبی سرگرمیوں میں بھی بہت سر گرم ہونے کے علاوہ کُشتی او ر کبڈی ٹیم کے کپتان اور کلر ہولڈر تھے۔ ان کی اردو اور پنجابی شاعری کی کتابوں کے علاوہ کئی علمی اور ادبی کتابیں بھی چھپ چُکی ہیں۔ وہ پنجابی یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر چیئر کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

اتفاق کی بات ہے چاروں بھائیوں کی حسِ مزاح کمال کی ہے۔ اتفاق، مقدر یا شوق کی بات ہے کہ سہیل احمد اداکاری کے شعبے میں آگئے ورنہ یہ صلاحیت میرے نزدیک کم و  بیش سب بھائیوں میں موجود تھی۔ سہیل احمد اور ان کے بڑے بھائی جاوید اکرم لاہور سے اردو روزنامہ “تہلکہ” بھی شائع کرتے رہے ہیں۔ جنید اکرم اپنے نانا کا رسالہ”پنجابی” بھی چھاپتے رہے ہیں۔ سہیل احمد خود بھی کبھی کبھار اردو اور پنجابی میں ہلکا پھلکا کالم لکھتے رہے ہیں۔

آفتاب اقبال بے شک طویل عرصہ کالم نگاری کرتے رہے ہیں لیکن وہ محدود حلقوں تک معروف تھے۔ آفتاب اقبال وزیرِ اعلیٰ منظور وٹو کے زمانے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز رہے. گو کہ اس عرصے کی بیورو کریسی نے انھیں تنخواہ نہیں دی مگر وہ دیگر تمام سہولیات سے مستفض ہوتے رہے۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں جب پی ٹی وی نے پرائیوٹ ڈرامے بھی خریدنے شروع کئے تو ان کا ایک ڈرامہ “نقاب” کے نام سے پی ٹی وی پر نشر ہوا تھا۔ یہ اتنا مشہور ڈرامہ تھا کہ میرے علاوہ شاید خود آفتاب اقبال یا چند دوسرے لوگوں کو یاد ہو۔

جب کہ سہیل احمد کا پہلا اردو سیریل “فشار” آج بھی لوگوں کو یاد ہے جس میں وہ طالب علم رہنما بنے تھے۔

آفتاب اقبال کے والد صاحب بلاشبہ صاحبِ طرز اور منفرد شاعر ہیں مگر معذرت کے ساتھ وہ منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی یا شہزاد احمد نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چھوٹا منہ بڑے بات والی مثال یہاں صادق آتی ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں بڑے لوگوں کا موازنہ کرنے والے مگر ایک عمومی رائے ہوتی ہے جو عموماً خواہ مخواہ جنم نہیں لیتی۔ ویسے تو ہر تخلیق کار اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے۔

یہ رویہ بعض اوقات تخلیقی طور پر مہمیز کا کام کرتا ہے اور کبھی کبھار یہ طرزِ عمل انسان کو اپنی سطحی تخلیقات کی محبتّ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب اپنے کالموں میں جہاں نئے تخلیق کاروں بالخصوص شاعروں کو متعارف کرواتے رہتے ہیں وہاں بڑے بڑے اور متفقہ طور پر اساتذہ کے عہدے پر فائز شعراء کے نقائص بھی نکالتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے بہت سے کالم پیش کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ایک کالم میں انھوں نے مرحوم مصطفےٰ زیدی کے مشہورِ عالم شعر

انہیں پتھروں پر چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

پر بحث کی تھی او ر لکھا کہ پتھروں اور کہکشاں کا تقابل نہ بنتا ہے نہ جچتا ہے۔

آفتاب اقبال بھی اسی طرزِ عمل کے شکار لگتے ہیں۔ سہیل احمد پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں اداکاروں اور کامیڈینز میں درجہ بندی نہیں کر سکتا، ’میری کیا ٹانگ نہیں ہے‘۔ بندہ پوچھے بھئی یہ کیا جواز ہے۔ جس کی ٹانگ نہ ہو وہ کیا کوئی رائے نہیں دے سکتا۔

آفتاب اقبال اور ان کے والدِ گرامی کی کالم نگاری پر آٹھ برس قبل چھپنے والی کتاب “میڈیا منڈی” کے چیپٹر “کالم نگار اور کالم نگاری” میں ایک فقرہ لکھا تھا کہ، ‘منفرد لہجے کے نامور شاعر ظفر اقبال “دال دلیا” کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ ان کے فرزند اور مشہور اینکر آفتاب اقبال کسی اور نام سے کالم لکھتے ہیں، حالانکہ ان کا کالم بھی دال دلیا ہی ہوتا ہے۔ ‘

سچی بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر ان کی پہچان دنیا ٹی وی کے پروگرام”حسبِ حال” کے بعد بنی۔ جبکہ سہیل احمد کے کھاتے سے حسبِ حال نکال بھی دیں تو وہ اس پروگرام سے پہلے بھی دنیا جہان میں اپنے ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔

آج اگر وہ آفتاب اقبال کا دیا گیا نام “عزیزی” بدل کر کچھ اور رکھ لیں تو وہ اسی نام سے معروف ہو جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ آخر سارے لوگ چھوڑ کر آفتاب صاحب کو ہی کیوں جاتے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی اینکر کے ہونے یا نہ ہونے سے سہیل احمد کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

آفتاب صاحب آپ جانتے ہیں آن اور آف دی کیمرہ امان اللہ کی مٹی بھی آپ بہت پلید کیا کرتے تھے۔ اب کسی دوسرے کو چھوٹا کرنے کے لیے کسی ایک کو بڑا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جب کہ سہیل احمد خود امان اللہ کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ بے شمار اداکاروں کو سہیل احمد نے متعارف کروایا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ رب نے آپ کو پے پناہ اعتماد، صلاحیتیں اور بولنے کا فن عطا کر رکھا ہے۔ جس طرح آپ شوز میں بولتے ہیں یا جس طرزِ عمل کا

مظاہرہ کرتے ہیں وہ بڑی حد تک ایسے شوز کی ضرورت بھی ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ آپ ایک لائق آدمی ہیں مگر آپ بھی جانتے ہیں آرٹ اور فن کی دنیا میں ٹیم ورک ہوتا ہے کوئی ایک فن کار سب کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ رائٹر یا ڈائریکٹر بڑا ہوتا ہے۔ یہ آپ کی رائے ہے جس سے اختلاف کا حق بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی ہے جیسا کہ آپ کو ہے۔

یہ آپ جانتے ہیں کہ نہ تو “حسبِ حال” کُلی طور پر آپ کا آئیڈیا تھا اور نہ ہی “خبر ناک ” مگر آپ زبر دستی اس کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ جہاں تک آپ کے دانش ور ہونے کا تعلق ہے تو بھئی یہ فیصلہ آپ نے نہیں بلکہ لوگوں نے کرنا ہے۔ لہذا یہ کام بھی عوام پر چھوڑ دیں۔ خود زحمت نہ ہی کریں۔

آپ جتنے بڑے لکھاری ہیں یہ بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔ آپ کے ساتھ طویل عرصہ کام کرنے والے ایک پروڈیوسر کا کہنا ہے کہ آفتاب اقبال لکھاری تو جیسے بھی تھے وہ خود کو کہتے تھے کہ مجھے بری چیز کی پہچان ہے اور یہ ان کی بات کافی حد تک درست بھی ہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ اگر آپ سہیل احمد کے نانا بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے بارے میں ایسے ہی ہلکی بات نہ کرتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

پنجاب یونیورسٹی کے ہال میں برسوں قبل مشاعرہ ہورہا تھا جس کی صدارت ڈاکٹر فقیر کررہے تھے۔

اورینٹیل کالج کے شعبہِ فارسی کے ایک نوجوان نے مشاعرہ کی ابتدا ء میں اپنی شاعری سنائی تو دادو تحسین کے ایسے ڈونگرے برسے کہ ڈاکٹر فقیر نے کہا کہ اس شاعر کے بعد آج کا مشاعرہ برخاست کیا جاتا ہے۔ آج کا مشاعرہ اس نوجوان کے نام ہے۔ وہ نوجوان معروف پنجابی اردو شاعر انور مسعود تھے۔ انور مسعود ماشااللہ بقیدِ حیات ہیں۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ میں ڈاکٹر فقیر کے بارے جانتا ہی نہیں تھا۔ دیکھیں لوگ اپنے بارے میں بات برداشت کر لیتے ہیں اپنے بزرگوں کے بارے میں نہیں کرتے۔

اپنے وی لاگ میں آفتاب صاحب آپ نے ایک اور دانش ورانہ بد دیانتی کی ہے کہ سہیل احمد کو کہا کہ آپ اپنے قائدین کی طرح 80 کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے نواز شریف اور شہباز شریف کی تصویر چلا دی۔

پھر کہا کہ جنرل باجوہ نے مجھے پاکستان سے نکالا۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی ہمدردوں کی حمایت کے لئے آپ نے یہ پروفیشنل بد دیانتی کی۔ کسی حد تک آپ اس میں کامیاب بھی رہے۔ مگر یہ بتائیے کہ سہیل احمد نے کب اور کہاں بیان دیا ہے کہ میاں برادران میرے قائدین ہیں؟

پھر آپ نے اپنے وی لاگ کے ٹائٹل پر سہیل احمد کی تصویر لگا کر “بڑا منہ بڑی بات” کا ٹائٹل لگایا۔ اب کوئی اسی طرح آپ کا چہرہ لگا کر ٹائٹل “چھوٹا منہ چھوٹی بات” لگا دے تو آپ کو کیسا لگے گا؟

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سہیل احمد کو آفتاب اقبال کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہئے تھا۔ اگر سہیل صاحب نے کچھ کہہ دیا تھا تو آفتاب صاحب کو جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔

اب کسی کا چھوٹا منہ ہے یا بڑا، ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp