امریکا نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے اڑنے والے لڑاکا طیارے کا افتتاح کردیا۔
مزید پڑھیں
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق، امریکی ایئر فورس کے سربراہ رینک کینڈل نے ریاست کیلوفورنیا کی ایڈورڈز ایئر فورس بیس پر طیارے کو اڑا کر اس کا افتتاح کیا۔ اورینج اور سفید رنگ کے اس ایف سولہ طیارے کی روایتی گھن گرج کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
ایف سولہ طیاروں کو امریکی فضائی قوت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 90ء کی دہائی میں امریکی فضائیہ نے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھائی اور اب امریکا اے آئی کی مدد سے اور بغیر پائلٹ کے اڑنے والے لڑاکا طیاروں کی تیاری کے ذریعے ڈاگ فائیٹ کو ایک نئی جہت دے رہا ہے جس میں فی الوقت اس کا کوئی مقابل نہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق، امریکا 2028ء تک بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ایسے ایک ہزار لڑاکا طیارے بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کامیاب پرواز کے بعد امریکی فضائیہ کے سربراہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے طیارے نہ ہونا امریکا کے لیے سیکیورٹی رسک ہوگا۔
مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلنے والے اس ایف سولہ لڑاکا طیارے کو ’وسٹا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ رینک کینڈل کا کہنا ہے کہ دوران پرواز انہوں نے اپنی مکمل تسلی کی جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طیارے میں یہ قابلیت ہے کہ اسے دوران جنگ کب اور کہاں بمباری کرنی ہے۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے طیارے بنانے کے لیے بہت زیادہ فنڈز درکار ہوں گے اور اگر چین کے ساتھ امریکا کی جنگ ہوجائے تو روایتی اور مہنگے طیاروں کے تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ پائلٹس کی زندگیوں کو بھی خطرہ ہے۔ چین کی فضائیہ امریکی فضائیہ کا مقابلہ کرنے کی بھرپور تیاری میں مصروف ہے تاہم چین ابھی تک اے آئی کی مدد سے اڑنے والے لڑاکا طیارے بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ ایف سولہ ’وسٹا‘ کی ستمبر 2023 میں کامیاب تجرباتی پرواز کی گئی تھی جس کے بعد اب تک 2 درجن سے زائد مرتبہ اس طیارے کو تجرباتی طور پر اڑایا گیا۔ اس طیارے میں استعمال کی گئی مصنوعی ذہانت نے پائلٹس کو پچھاڑ دیا ہے۔ کیلیفورنیا کی ایڈورڈز بیس پر تعینات پائلٹس کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ امریکی فضائیہ کو اب پائلٹس کی زیادہ ضرورت نہیں رہی۔