سندھ ہائیکورٹ نے صوبے میں پولیس تھانوں میں قائم دکانیں اور دیگر کاروباری سرگرمیاں فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیدیا۔
مزید پڑھیں
پولیس ویلفیئر کے نام پر تھانوں میں کاروباری سرگرمیاں کرنے کے حوالے سے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ظفر احمد راجپوت نے پولیس تھانوں کی زمین پر قائم دکانوں اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے اور حکم امتناع کے باوجود تھانوں کی زمین پر قائم دکانیں ختم کرنے کا بھی حکم دیا۔
دوران سماعت سندھ پولیس نے اپنی کاروباری سرگرمیوں سے متعلق رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی۔ اس رپورٹ کے مطابق، سندھ پولیس صوبے میں مجموعی طور پر 32 مختلف مقامات پر کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہے، جن میں پیٹرول پمپس، دوکانیں، فلیٹس اور دفاتر شامل ہیں۔
سندھ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق، سندھ پولیس کی زمینوں پر 4 پیٹرول پمپس اور 1397 دیگر کمرشل پراپرٹیز ہیں، جن میں 304 دکانیں، 66 فلیٹس، 8 گودام اور 62 دفاتر کراچی میں ہیں۔ ان میں سے 70 دکانیں کراچی کے ضلع وسطی جبکہ ایک پیٹرول پمپ ملیر میں پولیس کی زمین پر قائم ہے۔
حیدرآباد میں ایک پیٹرول پمپ، 247 دکانیں، 271 فلیٹس، 29 گودام اور 100 دفاتر ہیں۔ اسی طرح بدین میں 51 دکانیں، میر پور خاص میں 4 دکانیں، دادو میں 57 دکانیں جبکہ نواب شاہ میں 169، سکھر میں 117، خیرپور میں 121 دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ گھوٹکی، لاڑکانہ، کشمور، جیکب آباد میں بالترتیب 70، 62، 27 اور 92 دکانیں ہیں۔
’پولیس بلیک میل کرنا چاہتی ہے‘
یاد رہے کہ سندھ ہائیکورٹ میں ایک دوکاندار کی درخواست زیر سماعت ہے جس میں اس نے مؤقف اپنایا تھا کہ اسے جس دکان کو خالی کرنے کا کہا جا رہا ہے وہ وہاں قابض نہیں بلکہ کرایہ دار ہے اور پولیس 15 سے 20 گنا کرایہ بڑھانے کے لیے اسے بلیک میل کرنا چاہتی ہے۔
دکاندار کے وکیل محمود عالم رضوی ایڈووکیٹ نے پولیس اور دکانداروں کے درمیان کرایہ داری کا معاہدہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے دلائل دیے کہ یہ 11 ماہ کا کرایہ داری کا معاہدہ ہے جس کی سال بہ سال تجدید ہوتی رہتی ہے، درخواست میں ہوم سیکریٹری ،آئی جی سندھ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سینٹرل کو فریق بنایا گیا ہے۔
تھانوں میں کمرشل سرگرمیاں کرنے پر عدالت نے آئی جی سندھ پر برہمی کا اظہار کیا اور صوبے بھر کے تھانوں میں کاروباری سرگرمیاں فوری ختم کرنے کا حکم دے دیا۔
واضح رہے کہ پولیس کی کاروباری سرگرمیوں سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ظفر احمد راجپوت نے پولیس سے جامع رپورٹ طلب کی تھی جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا پولیس تھانوں میں کمرشل سرگرمیاں جاری ہیں اور بتایا جائے کہ تھانوں میں جاری کاروباری سرگرمیاں کب تک ختم ہوجائیں گی۔