ارشد علی جو کبھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزارتے تھے، پھر کراچی کے پسماندہ اورنگی ٹاؤن کے اس جوان کو دوران ڈیوٹی ایک حادثے نے اپنے لپیٹ میں لیا اور کرنٹ لگنے کے باعث دونوں بازوؤں سے معذور ہونا پڑا۔
ارشد علی کہتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کو بالکل تبدیل کرنے والا حادثہ تھا۔ ’اس کا مطلب تھا کہ اب میں ناکارہ ہوچکا ہوں اور اپنے اہلخانہ پر بوجھ ہوں لیکن اسی دوران مجھے ایک احساس نے اپنی لپیٹ میں لیا کہ میرے اوپر تو پھر بھی اللہ کا اتنا فضل ہے کہ میری نوکری بحال ہے اور اتنی آمدن ہے کہ گھر کا چولہا بجھے گا نہیں، مگر پاکستان بھر میں بسنے والے معذوروں کا کیا ہوگا جو مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں
ارشد علی کے مطابق انہوں نے معاشرے کے معذور افراد کی مدد کا فیصلہ کیا اور اس کا آغاز اپنے علاقے سے کیا۔
انہوں نے کہاکہ کراچی اور پھر پورے سندھ کے بعد اب تک پاکستان بھر کے 12 ہزار معذور افراد کی مدد کرچکا ہوں۔
ارشد علی نے جو ادارہ بنایا ہے وہ اب نا صرف معذوروں بلکہ عام مستحق افراد کی بھی مدد کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم لوگوں کو مالی تعاون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ اور روزگار بھی فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں اور بھیک نہ مانگیں۔
ارشد علی نے کہاکہ معذور افراد کو اس معاشرے نے اب تک قبول نہیں کیا لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ ہر ماں باپ کو معذور بیٹے کے لیے نارمل لڑکی اور معذور لڑکی کے لیے نارمل اور امیر لڑکا چاہیے جو کہ ممکن نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے بہت سے معذور لڑکے لڑکیوں کی آپس میں شادیاں کرائی ہیں۔ ’خواہش ہے کہ اس ملک میں معذوروں کو نشے اور بھیک کی لعنت سے چھٹکارا دلا کر معاشرے کا کارآمد فرد بنا سکوں‘۔