یونیورسٹی آف گیلف کی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے جہاں انسان بری طرح متاثر ہوا ہے اسی طرح کائنات کو مختلف طریقوں سے فائدہ پہنچانے والی بومبل بیز (بھونروں) کی بقا کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
محققین کے مطابق عالمی حدت میں اس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ پودوں کے پولینیٹر، انسانوں اور دیگر جانوروں کے لیے خوراک کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرنے والی بومبلبیز (بھونروں) کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی 86 ڈگری سے بڑھ کر 89.6 ڈگری تک پہنچ رہی ہے۔ گلیف کے ماحولیاتی پروفیسر پیٹر کیون کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کے اندر درجہ حرارت کو تھرموریگولیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ یہ کام کافی لمبے عرصے تک کر سکتی ہیں۔
تاہم محققین کا کہنا ہے کہ کائنات کے اندر بومبل بیز یعنی بھونروں کی کئی اقسام پائی جاتی تھیں جن میں سے اب چند ایک باقی رہ گئی ہیں اور ان کی بقا کو بھی عالمی حدت میں بڑھتے ہوئے اضافے کے باعث شدید خطرات لاحق ہیں۔
پروفیسر پیٹر کیون کا کہنا ہے کہ بھونروں کی نسلوں کے خاتمے کی وجوہات کے طور پر جب جاننے کی کوشش کی گئی تو اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ شدید گرمی ممکنہ طور پر ایک ایسا عنصر ہے، جس سے بھونروں کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بومبلبیز یا بھونروں کے لیے تقریباً 35 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے، باوجود اس کے کہ ان میں تھرموریگولیٹ کرنے کی قابل ذکر صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔
محققین کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سال 2023 اب تک ریکارڈ کیا جانے والا گرم ترین سال تھا جب کہ محققین کے مطابق اس سال کا درجہ حرارت 2023 کا ریکارڈ توڑنے کے لیے بھی تیار ہے۔
پیٹر کیون کا مزید کہنا ہے کہ ٹھنڈک کے مقابلے میں گرمی جانوروں اور پودوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔ جب موسم ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ جاندار جو اپنے جسم کے درجہ حرارت کو میٹابولک طور پر کنٹرول نہیں کرتے وہ سست ہو جاتے ہیں لیکن جب درجہ حرارت بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو میٹابولک عمل ٹوٹنے لگتا ہےاور پھر جانور یا حشرات تیزی سے موت کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘
محققین کے مطابق بومبلبیز یعنی بھونروں کی 250 مختلف اقسام ہیں، جن میں سے 49 صرف امریکا میں پائی جاتی ہیں۔