چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران قتل کی سازش اور اہلیہ کی تنہا موجودگی میں زمان پارک رہائشگاہ پر حملے کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔
عمران خان کی جانب سے چیف جسٹس کے نام لکھے گئے خط میں استدعا کی گئی ہے کہ میرے قتل کی سازش ،ریاستی دہشت گردی وبربریت کے واقعات کی جامع تحقیقات کی جائیں اور تمام مقدمات میں ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمات کی پیروی کی سہولت دی جائے۔
عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ حکومت میری سلامتی کے حوالے سے مکمل غیر سنجیدہ اور سیکیورٹی کی فراہمی سے گریزاں ہیں جس کے باعث اس سے قبل بھی وزیر آباد میں قاتلانہ حملے کا شکار ہوچکا ہوں اور اب پیشیوں کی صورت میں میری زندگی مکمل خطرات کی زد میں ہے۔
میرے موقف کی حساسیت اور سنجیدگی کو سمجھا جائے
عمران خان نے کہا کہ 18مارچ کو عدالت میں پیشی کے موقع پر پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں استدعا ہے کہ میرے موقف کی حساسیت اور سنجیدگی کو سمجھا جائے۔
عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے میری پیشی کو آسان بنانے کے بجائے جان بوجھ کر عدم پیشی کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی اور اسلام آباد عدالتی کمپلیکس میں تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر بلاک کیا گیا۔
عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ اظہار یکجہتی کے لیے آنے والوں کو اشتعال دلانے کے لیے پولیس اور رینجرز نے کارکنوں اور قائدین پر آنسو گیس اور لاٹھیوں کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ عدالتی کمپلیکس کی چھت پر تعینات پولیس اہلکاروں نے نہتے کارکنوں پر پتھر برسائے۔ اس وحشت اور سنگ باری کی ویڈیوز موجود ہیں۔
عمران خان نےموقف اختیار کیا کہ مجھے راستے ہی میں احساس ہوگیا تھا کہ میری گرفتاری مقصود نہیں بلکہ قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ، پھر میرے اس موقف کو تقویت اس سے ملی کہ ہمارے وکلاء کو مار پیٹ کر باہر نکال دیا گیا اور کم وبیش 20 نامعلوم افراد عدالتی کمپلیکس کے اندر موجود رہے جنہوں نے وردیاں پہن رکھی تھیں اور نہ ہی کوئی اور شناخت ظاہر کر رکھی تھی۔
اسلام آباد میں نامعلوم افراد کومیرا خون کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا
عمران خان نے کہا ہے کہ ان نامعلوم افراد کو یقینی طور پر میرا خون کرنے کے لیے وہاں کھڑا کیا گیا تھا مگر اللہ رب العزت نے میری حفاظت کی۔
عمران خان نے خط میں مزید لکھا ہے کہ میں جب اسلام آباد عدالت میں پیشی کے لیے راستے میں تھا تو پولیس نے ہائی کورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے لاہور میں میری رہائشگاہ پر دھاوا بولا اور اس وقت میری اہلیہ چند گھریلو ملازمین کے ساتھ گھر میں اکیلی تھیں حالانکہ وہ غیر سیاسی خاتون ہونے کے باعث چادر اور چاردیواری تک محدود ہیں۔
عمران خان نے کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے میری رہائشگاہ کا دروازہ توڑنا اور گھر پر یوں دھاوا بولنا چادر اور چاردیواری کے تقدس اور اسلامی اصول کی بھی خلاف ورزی ہے ، اس لیے میری زندگی کو لاحق خطرات اور میری رہائش گاہ پر حملے کی روشنی میں ان واقعات کی جامع تحقیقات کی جائیں۔
عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ سابق وزیراعظم اور وفاق کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد سے تو درکنار ، ایسا سلوک تو کبھی کسی کے ساتھ بھی نہیں ہوا۔