جنوبی وزیرستان اپر غیر آباد کیوں؟

بدھ 8 مئی 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپریشن راہ نجات کو قومی میڈیا پر وہ توجہ نہیں ملی جو دیگر آپریشنز کو ملیں۔ حالانکہ یہ حالیہ آپریشنوں میں سب سے بڑا آپریشن تھا۔ 2009 میں کیے گئے اس آپریشن کی وجہ سے علاقہ خالی کرنے والے متاثرین کی واپسی کئی برسوں بعد شروع ہوئی مگر آج تک بعض ایسے علاقے ہیں جن کو کلئیر قرار نہیں دیا گیا۔ دوستوں کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جنوبی وزیرستان اب دو ضلعوں اپر اور لوئر میں تقسیم ہوچکا ہے لیکن آپریشن راہ نجات صرف محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں کیا گیا تھا۔ بتانے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اکثر دوست وانا جو احمد زئی وزیر کا علاقہ ہے کو اس آپریشن سے جوڑتے رہتے ہیں۔ حالانکہ آپریشن راہ نجات صرف اور صرف جنوبی وزیرستان کے ان حصوں میں کیا گیا جہاں محسود قبیلہ آباد تھا۔

آپریشن راہ نجات کے بعد سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ لوگوں کی علاقے میں دوبارہ آباد کاری اور انفراسٹرکچر بنانے کا تھا۔ مگر انتظامی معاملات اس قدر غیر شفاف اور غیر منظم تھے کہ ہم جیسے لوگ اب بھی افسوس کررہے ہیں۔ لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے بعد سب سے اچھی ڈیویلپمنٹ ٹانک سے مکین اور کانیگرم روڈ کی تعمیر تھی۔ جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ یو ایس ایڈ نے اس کے لیے کافی پیسہ دیا تھا اور وہ بھی ایمانداری سے خرچ نہیں کیا گیا۔ خیر گزری باتیں چھوڑ کر آج کی طرف آتے ہیں۔

اپریل 2022 میں جنوبی وزیرستان کو دو ضلعوں میں تقسیم کردیا گیا جس میں جنوبی وزیرستان اپر وہ علاقہ ہے جہاں محسود قبیلہ آباد ہے اور جنوبی وزیرستان لوئیر میں احمد زئی قبیلہ آباد ہے۔ دیکھا جائے تو جنوبی وزیرستان لوئیر میں ضلعی انفراسٹرکچر پہلے سے موجود تھا اور سالوں سے گرمیوں کے تین ماہ پولیٹیکل ایجنٹس وانا آفس چلے جاتے جبکہ سردیوں کے موسم میں ضلع ٹانک کے آفس میں رہتے۔

دوسری طرف جنوبی وزیرستان کا وہ علاقہ جہاں محسود قبیلہ آباد ہے وہ انتظامی ڈھانچے کے بغیر رہا۔ اس بارے میں اگر کوئی کسی ذمہ دار سے سوال تو ان کی طبیعت پر ایسی باتیں ناگوار ہی گزرتی ہیں۔

نئے ضلع کے اعلان کے بعد امید تھی کہ جلد ہی ڈپٹی کمشنر کو محسود علاقے میں منتقل کر دیا جائے گا لیکن یہاں پر ہیڈکوارٹر کا مسئلہ پیدا کیا گیا کہ ہیڈکوارٹر کہاں ہوگا؟ مسئلہ پیدا کرنے والوں میں وہی طبقہ تھا جو سالوں سے علاقے سے سو ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ضلع ٹانک سے انتظامی معاملات چلانے کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ اور ڈپٹی کمشنر کی سہولت کاری کررہے ہیں۔ انتہائی عجلت میں سپینکئی رغزائی میں ہیڈکوارٹر بنانے کا اعلان کیا گیا جس پر لوگوں کا شدید ردعمل آیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ضلعی ہیڈکوارٹر وہاں بنایا جائے جہاں لوگ موجود ہیں۔ جہاں کی ترقی وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت یہاں کے لوگ ہر طرح کی بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں علاقے سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی آصف محسود نے محسود پریس کلب کے صحافیوں سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ جلد علاقے میں منتقل کی جائے گی اور مکمل آباد کاری پر تین چار سال مزید لگیں گے۔ آصف محسود نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یارک سے براستہ جنڈولہ مکین اپر وزیرستان کو افغانستان سے ملایا جارہا ہے اور اس پر جلد ہی کام شروع کر دیا جائے گا۔ اس بارے میں باتیں تو ہم بھی کافی عرصے سے سنتے آرہے ہیں لیکن کوئی ایسی مستند دستاویز نظر سے نہیں گزری کہ سی پیک کو براستہ جنوبی وزیرستان اپر افغانستان تک ملایا جا رہا ہے۔ ویسے اگر ایسی کسی تجویز پر عمل ہوتا ہے تو اس کے دو فائدے ہیں۔ پہلا یہ کہ افغانستان تک جانے والے تمام راستوں میں یہ قریب پڑتا ہے اور دوئم یہ کہ علاقے میں اقتصادی چہل پہل ہوگی تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور خوشحالی کا راستہ کھل سکتا ہے لیکن میری نظر میں فوری حل طلب مسئلہ جنوبی وزیرستان اپر کے انتظامی معاملات ہیں۔ اس وقت جنوبی وزیرستان اپر کا ڈپٹی کمشنر ضلع ٹانک میں بیٹھ کر سب سے بڑا کام اگلے سٹیشن تبدیلی کا انتظار کررہا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور کام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کام میں دلچسپی نظر آ رہی ہے۔

آسمان مانزہ جنوبی وزیرستان اپر میں آرمی ہیڈکوارٹر بن گیا ہے جہاں آسانی کے ساتھ ڈپٹی کمشنر کو بھی ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے اور ایسے میں لدھا میں اسسٹنٹ کمشنر لدھا کا آفس موجود ہے جہاں وہ اپنے دفتر میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر سرویکئی کا آفس سرویکئی میں موجود ہے، موصوف اپنا دفتر آباد کر سکتے ہیں۔

اکثر افسران وزیرستان کا نام سن کر بدامنی کا رونا روتے ہیں جبکہ اس وقت حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس وقت بندوبستی علاقوں میں حالات جتنے خراب ہیں وزیرستان میں اتنے نہیں خراب سوائے مخصوص حصوں میں جیسے کہ شمالی وزیرستان کے میرعلی میں ٹارگٹ کلنگ حد سے زیادہ ہے لیکن جنوبی وزیرستان اپر میں ایسے حالات ہرگز نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر جنوبی وزیرستان اپر کی ترقی مقصود ہو تو ڈپٹی کمشنر کو پہلی فرصت میں علاقے بھیجا جائے اور ضلع ٹانک میں موجود آفس کو یا تو مسمار کر دیا جائے یا فوری طور پر کسی اور سرکاری محکمے کے حوالے کیا جائے تاکہ بیوروکریسی حیلے بہانوں سے دوبارہ یہاں ٹھکانہ نہ بنا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp