جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 8 فروری کو انتخابات میں دھاندلی کے الزامات تسلیم کرے، مسترد کرتی ہے تو پھر ان کے 9 مئی کے بیانیے کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے پشاور میں ملین مارچ کا 9 مئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
منگل کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کی پوری قوم کے ساتھ ہم نے بھی مذمت کی تھی، آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور احتجاج اپنی جگہ پر لیکن ہم ان کی بات کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر بتایا جائے کہ الیکشن میں دھاندلی کی ہے یا نہیں؟ یا تو وہ مان لیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے الیکشن میں دھاندلی کی ہے اگر نہیں تو پھر یہ بتایا جائے کہ عوام نے تو 9 مئی کے بیانیے کو مسترد کر دیا۔
سب سے کہا کہ اسمبلی میں حلف نہ اٹھائیں پھر بھی سب نے اٹھا لیا
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اصولوں پر قائم رہنا اور استعداد کے مطابق ڈٹے رہنا 2 الگ چیزیں ہیں، جتنی استعداد ہو اسی کے مطابق بھی ردعمل ظاہر کرنا ہوتا ہے، دھاندلی صرف ہمارے لیے نہیں سب کے لیے ہوئی ہے، 2018 کی دھاندلی کے خلاف بھی ہم نے کہا تھا کہ اسمبلی میں حلف نہ اٹھائیں لیکن سب نے اٹھا لیا، اب 2024 میں بھی ہم نے یہی بات کی تو دیگر لوگوں نے جب حلف اٹھا لیا تو پھر ہم نے بھی اٹھایا اس لیے کہ شاہد ہم تنہا اس میں مؤثر نہ ہوتے۔
عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول کس نے بنایا؟
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دھاندلی کے خلاف ہمارا مؤقف واضح ہے اور عوام بھی اس میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے خلاف ماحول کس نے بنایا؟، آج عوام کی رائے کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو یہ حق بھی عوام خود لے گی۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم ماضی میں جن لوگوں کے اتحادی رہے وہ آج اپنی تاریخ لکھوا رہے ہیں اور ہم اپنی تاریخ لکھوا رہے ہیں آگے نسلیں سوچیں گی کہ کون سچائی پر تھا۔
پشاور ملین مارچ کے بعد نیا لائحہ عمل اپنائیں گے
انہوں نے کہا کہ پشاور ملین مارچ کے بعد نیا لائحہ عمل اپنائیں گے، یہ ہمارا آزمائشی احتجاج تھا جس میں ہم کامیاب رہے، اب ملک گیر احتجاج کے لیے منصوبہ بندی کریں گے، جب تحریکیں چلتی ہیں تو ان کے لیے گرفتاریوں سمیت ہر قربانی دینا پڑتی ہے۔
مجھے دھاندلی کے خلاف تحریک سے الگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی
پشاور کا جلسہ پیغام دے گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں، ہم نے عوام کی رائے دُنیا کو بتا دی ہے، مجھے دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک سے الگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، سخت دباؤ ڈالا گیا، ساتھی جماعتوں کے آڈیو سنائی گئیں، لیکن ہم نے کوئی بات نہیں مانی، ہم اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، واضح پیغام دے دیا کہ اس طرح نہیں ہو گا ہم اپنی تحریک سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس وقت ایک کنٹینر پر تمام جماعتیں اکٹھی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ہی عوام کی نمائندگی کرے گی۔
جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان اختلافات کے پہاڑ کھڑے تھے
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اختلافات کے پہاڑ کھڑے تھے، لیکن ان کے وفود ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم آگے بڑھ کر معاملات ٹھیک کریں گے، ان وفود نے کہا کہ ہم عمران خان کے کہنے پر ہی آپ کے پاس آئے ہیں۔ ہمارے لیے آج بھی وہی پی ٹی آئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے بیانات آج بھی آ جاتے ہیں جو پارٹی کے بیانیے سے مختلف ہوتے ہیں، ہمارا سوال موجود ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک پیج پر کیوں نہیں ہے؟ ہمارے لیے پاکستان تحریک انصاف آج بھی وہی ہےتاہم اس اتحاد کے منافی جب تک پی ٹی آئی کی جانب سے جب تک کوئی بات سامنے نہیں آتی تو ہم بھی اپنی بات پر قائم ہیں اور رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا کہ کیا جمعیت علمائے اسلام سیاست کو خیر آباد کہنے جا رہی ہے تو جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر پارلیمانی جمہوریت کے لیے انتخابی عمل میں دھاندلی سے عوام کی رائے تبدیل کی جاتی ہو، ہم پیسے بھی خرچ کریں، عوام کے پاس بھی جائیں، عوام ہمارے ساتھ بھی ہوں اور پھر نتائج بھی تبدیل ہو رہے ہوں تو پھرایسی سیاست کا فائدہ کیا ہوا اس لیے اس طرح کی رائے قائم ہو جاتی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے جماعتوں میں ٹکٹ جاری کرواتی ہے
مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ آزاد یا جماعتوں میں سے اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کرتی ہے اور انہیں ٹکٹ دلواتی ہے۔1997 میں مجلس عاملہ کے اجلاس میں ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آئندہ الیکشن کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے اور ملک میں تحریکوں کے ذریعے ایک انقلابی سیاست کریں گے۔
میں رازوں کا بڑا خیال رکھتا ہوں اور احترام کرتا ہوں، جوں ہی الیکشن قریب آتا گیا تو ہمیں دھمکی آمیز خطوط ملنا شروع ہو گئے۔
نواز شریف سے کہا تھا، اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کر دیں
پی ٹی آئی سے معاملات بنتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے نہ بنے تو ہر پارٹی کا مؤقف اور رائے اپنی ہو گی۔ میں نے مسلم لیگ ن سے کہا کہ اپوزیشن میں آؤ، اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کر دو۔ ان کی کوشش ہے کہ ہم جا کر ملیں، ہم چاہتے ہیں وہ آ کر ملیں۔ نواز شریف کو تجویز پر غور کرنا چاہیے، وہ مجھ سے زیادہ پریشان ہیں۔
فضل الرحمان نے کہا کہ ن لیگ نے پنجاب میں شیر کے نشان پر الیکشن لڑنے کی بھی پیش کش کی تھی، ہم اور مسلم لیگ ن دوست رہنا چاہتے ہیں۔