ٹک ٹاک کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کا گورکھ دھندا کیسے جاری ہے؟

بدھ 8 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

21ویں صدی میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ٹیکنالوجی میں جدت آتی جا رہی ہے۔ موبائل فون پر چلنے والی سماجی رابطوں کی مختلف آن لائن پلیٹ فارمز انسانوں کے درمیان فاصلوں کو کم اور انہیں تفریح کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پلیٹ فارمز لوگوں کو اپنے کاروبار کو پروان چڑھانے میں بھی معاون ثابت ہورہے ہیں۔ تاہم چند جرائم پیشہ افراد نے ان پلیٹ فارمز کو سنگین نوعیت کے جرائم کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

بلوچستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینیئر آفسیر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیکنالوجی خصوصاً آن لائن رابطوں میں جدت کو جہاں عام لوگ استعمال کر رہے ہیں، وہیں جرائم پیشہ افراد نے بھی ان کا غلط استعمال شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں اس حوالے سے بلوچستان میں ایک انوکھا واقعہ بھی پیش آیا کہ ایک ڈنکی ایجنٹ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے 9 نوجوانوں کو روشن مستقبل کا سہانا خواب دکھایا اور  انہیں غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچانے کا وعدہ کیا۔ ڈنکی ایجنٹ نے ان نوجوانوں کو غیرقانونی راستے سے ایران پہنچایا۔ جہاں ایک دوسرے ایجنٹ نے انہیں اغوا کرکے ان کے گھر والوں سے بھاری تاوان کا مطالبہ کردیا۔

ایجنٹ نے 9 نوجوانوں کو کیسے اغوا کیا؟

آیف آئی اے کے افسر نے اس حوالے سے بتایا کہ ان نوجوانوں کو چند روز قبل بازیاب کروا لیا گیا۔ دوران تفتیش ان نوجوانوں نے بتایا کہ انہوں نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر ایک ایجنٹ کی مختلف ویڈیوز دیکھیں جس کے بعد اس ایجنٹ کے اکاوئنٹ سے انہیں اس کا نمبر ملا۔ بعدازاں، اس ایجنٹ نے ایران پہنچانے تک کی رقم لے کر دوسرے ایجنٹ کے سپرد کردیا جہاں ایک دوسرے ایجنٹ نے انہیں اغوا کرکے تشدد کیا اور تاوان کے لیے گھر والوں سے رقم کا مطالبہ کیا۔ تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ان نوجوانوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بلوچستان سید احمد نے کہا کہ پشاور کے نوجوانوں کے ساتھ ہونے والے واقعہ کو دراصل ’ٹرانس بارڈر کڈنیپنگ‘ کہا جاتا ہے، جس میں ایک ایجنٹ انسانی اسمگلنگ کے ذریعے لوگوں کو دوسرے ایجنٹس کو فروخت کردیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں سرحد پار کروا کر نوجوانوں کو اغوا کرنے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں تاہم ٹک ٹاک کے ذریعے نوجوانوں کو ورغلا کر ایران لے جانا اور وہاں انہیں اغوا کرنے کا یہ پہلا واقعہ میرے سامنے آیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدلتے دور کے ساتھ ڈنکی لگانے والے ایجنٹس نے بھی اپنا طریقہ واردات بدل لیا ہے۔ تاہم ان واقعات کی روک تھام کے لیے ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ فعال ہے جو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے۔

’کتنے پاکستانی سرحد پار جاتے ہیں اور کتنے واپس آتے ہیں‘

سید احمد نے بتایا کہ تفتان اور گبد کے زمینی راستوں کے علاوہ سمندری راستوں سے بھی انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال 48 ہزار سے زیادہ افراد قانونی اور غیرقانونی طریقے سے ایران کی سرحد عبور کرتے ہیں لیکن ان میں سے صرف 2 سے 3 فیصد لوگ وطن واپس لوٹتے ہیں۔ انہوں ن کہا کہ ایجنٹس دراصل سہانے مستقبل کا خوب دکھا کر غریب گھرانوں کے نوجوانوں کو یورپ جانے کے لیے ورغلاتے ہیں۔ ان میں 75 فیصد وہ نوجوان ہوتے ہیں جو مجبوری اور غربت سے تنگ آکر جلا وطنی کو اپناتے ہیں جبکہ 25 فیصد وہ ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی یورپ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈنکی کے خطرناک راستے کو چنتے والے 80 سے 90 فیصد نوجوانوں کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے۔

ایف آئی اے بلوچستان کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 5 سال کے دوران غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں میں سے 55665 افراد ڈیپورٹ کیا گیا، جن میں سال 2020 کے دوران 19069، سال 2021 کے دوران 19557، 2022 کے دوران 5676، 2023 کے دوران 8227 جبکہ رواں برس اب تک 3136 افراد کو ڈی پورٹ کیا جاچکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp