پاکستان تحریک انصاف پارلیمانی طور پر سنی اتحاد کونسل بن چکی ہے، کئی سرگرم رہنما یا تو پارٹی اور سیاست چھوڑ چکے یا دوسری سیاسی جماعتوں کا حصہ بن چکے ہیں لیکن 8 فروری کے انتخابی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی اب بھی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے جو عمران خان کے بیانات کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی منتظر ہے۔
مزید پڑھیں
بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری شاید قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکی تھی۔ 9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری سے قبل مارچ 2023 میں جب اسلام آباد پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے ان کی لاہور میں رہائش گاہ زمان پارک پہنچی تو اس کا سامنا ایک مشتعل ہجوم کے ساتھ ہوا جس سے جانی اور مالی طور پر ایک بڑا نقصان ہوا۔ اس کے بعد بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف 18 مارچ 2023 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئے تو احاطہ عدالت کو مشتعل مظاہرین نے گھیر لیا جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے اثرات کمرہ عدالت کے اندر بھی محسوس کیے جا رہے تھے۔ پولیس اور مظاہرین میں طویل جھڑپوں کے بعد عدالت نے گاڑی کے اندر ہی عمران خان کی حاضری لگوائی اور انہیں عبوری ضمانت بھی دے دی۔
گزشتہ برس 9 مئی کو عمران خان جی 10 میں واقع اسلام آباد ہائیکورٹ کی پرانی عمارت میں ضمانت کے حصول کے لیے آئے تو قومی احتساب بیورو نے پاکستان رینجرز کی مدد سے عمران خان کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ بائیو میٹرکس کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں موجود ایک دفتر میں موجود تھے جہاں سے رینجرز اہلکاروں نے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر انہیں گرفتار کر لیا۔ عمران خان کو القادر ٹرسٹ مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتاری پر ردعمل
عمران خان کی گرفتاری پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے شدید ترین ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو، حمزہ کیمپ، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس، فیصل آباد میں آئی ایس آئی کا دفتر اور میانوالی میں پاکستان ایئرفورس کے بیس پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے شدید ترین حملے کیے گئے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نوجوانوں نے مرکزی شاہراوں پر ٹریفک کا نظام روک دیا جس سے پورا ملک میں نظام زندگی شدید ترین متاثر ہوا۔
گو کہ 2 دن کے بعد سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے صورتحال کا نوٹس لیا اور عمران خان رہا ہو گئے لیکن 9 مئی کے بعد 2 دن کے اندر جو واقعات رونما ہوئے ان کی نوعیت اس قدر شدید تھی کہ آج ایک سال بعد بھی اس شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ کئی کارکنان گرفتار ہوئے اور کئی کو آرمی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم بات کہ نو مئی نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو کس طرح تبدیل کیا۔
9 مئی واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے اسپیس کم ہوئی ہے، مجیب الرحمان شامی
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی واقعات کے بعد ہماری سیاست، صحافت اور عدالت سب پر دباؤ بڑھ گیا اور اس سے جمہوریت کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان واقعات سے معاشرے، اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان جو بداعتمادی کی فضا قائم ہوئی ہے اس سے ہمارا نظام کمزور ہوا ہے اور 9 مئی واقعات کے بعد قوم میں جو تقسیم کی فضا پیدا ہوئی ہے اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ سپریم کورٹ احکامات کے تحت عدالتیں 9 مئی مقدمات میں گرفتار ملزمان کے حتمی فیصلے نہیں کر سکتیں۔ اب ایک سال ہونے کو آیا ہے لوگ جیلوں میں بند ہیں جس سے ان کی مظلومیت کا تاثر بنتا ہے کہ مقدمہ چلائے بغیر کس طرح سے لوگوں کو اندر رکھا جا سکتا ہے۔
9 مئی واقعات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی ہوئی یا اضافہ، اس سوال کے جواب میں مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ مقبولیت اور عدم مقبولیت کا تو سوال ہی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ان واقعات سے بہت بڑا دھچکہ پہنچا، ان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل سکی جس سے ملک میں عمومی طور پر جمہوریت کا نقصان ہوا۔
پاکستان میں ہر سیاستدان فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کی بجائے اس کی اپنے لیے حمایت چاہتا ہے، انصار عباسی
پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ نگار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے اندر فوج سے نفرت جس قدر بھر دی گئی ہے اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے بھی بہت آگے کی چیز ہے۔
انصار عباسی نے کہا کہ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت اور کوئی بھی سیاستدان فوج کے سیاسی کردار کو مکمل ختم نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ لوگ فوج کو اپنی حمایت میں سرگرم دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب بھی سیاست دان طاقت سے ہٹتے ہیں تو مقبولیت کے لئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپناتے ہیں لیکن طاقت میں آ کر وہ پھر سے فوج کے سیاسی کردار کے حامی نظر آتے ہیں۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ عمران خود یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ دو بار جنرل باجوہ سے مل سکتے ہیں تو کسی سے بھی مل سکتے ہیں جس کا صاف مطلب ہے کہ وہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملنا چاہتے ہیں اور پھر اگر ہم 2014 کے دھرنے سے دیکھیں تو عمران خان تو خود بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کا پراجیکٹ تھے۔
9 مئی واقعات کے پاکستانی سیاست پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا سب سے پہلا اثر تو یہ ہوا کہ پاکستان کی سیاست تقسیم ہو گئی۔ پہلے ہائبرڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوتی تھی لیکن 9 مئی کے بعد سیاستدانوں کے اسپیس کافی کم ہوگئی ہے۔ 8 فروری انتخابات سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول سیاستدان ہیں لیکن پاکستان میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ قبولیت بھی ہونا لازمی ہے۔ قبولیت پاکستان تحریک انصاف نے ختم کروادی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ یہ کہتی ہے کہ ہم 9 مئی واقعات کو نہ بھلا سکتے ہیں۔ 9 مئی کے دن جو کچھ ہوا ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قطع نظر اس بات کے کہ سازش تھی نہیں تھی، پی ٹی آئی کارکنوں نے پاک فوج کے مختلف مراکز پر حملے کیے۔ یہ لوگ بنیادی طور پر تو انقلاب لانا چاہتے تھے لیکن ان کا انقلاب ناکام ہو گیا اور اس کے بعد جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا وہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس لیے 9 مئی کے بعد بہت ساری چیزیں پی ٹی آئی کے مفاد کے خلاف ہونا شروع ہو گئیں جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کارکنان کے اندر فوج کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔
جب تک اسٹیبلشمنٹ میری حمایت نہیں کرتی میں اس کے خلاف ہوں، احمد بلال محبوب
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کو ہم اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہہ سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ میری حمایت نہیں کرتی میں اس کے خلاف ہوں۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اپنے دور حکومت میں بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کی ساری باتیں مانتے رہے ہیں اور ان کو اس وقت کوئی مشکل نہیں تھی۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ہی پاپولر ہے اور جب پاکستان مسلم لیگ نواز نے اس بیانیے کو چھوڑا تو اس خلا کو پی ٹی آئی نے کم یابی سے پر کیا اور آج اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنانیئے کے تناظر میں پی ٹی آئی کا کوئی مدمقابل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد شروع کے چند مہینوں میں تو ایسے لگتا تھا کہ جیسے پاکستان کا بیانیہ تبدیل ہونے جا رہا ہے یعنی جس انداز میں پی ٹی آئی کے رہنما پارٹی کو چھوڑ چھوڑ کر جا رہے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کی جو مقبول تھے وہ غیر مقبول ہو جائیں گے اور غیر مقبول، مقبول ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جونہی عام انتخابات کا وقت قریب آیا تو ملک کی عمومی فضا بدل گئی اور اسٹیبلشمنٹ کو ناپسند کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ 9 مئی واقعات میں ملوث چند لوگوں کو گرفتار کر کے سو گئے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ چونکہ یہ دہشت گردی کے گمبھیر معاملے تھے اس لیے جلد مقدمات قائم کیے جاتے، جلد تحقیقات مکمل کی جاتیں اور روزانہ کی بنیاد پر عدالتی کاروائی چلا کر ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس سے لوگوں کا شک پختہ ہو گیا کہ 9 مئی ایک سازش تھا۔ یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ ناکامی ہے۔
9 مئی واقعات کے بعد ریاست اور ریاست مخالف گروہوں کے درمیان سرخ لکیر کھنچ گئی، سید محمد علی
ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے انداز سیاست نے پاکستان کے سیاسی نظام پر منفرد اثرات مرتب کیے ہیں۔ مارچ 2022 سے قبل کسی بھی سیاسی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ سے مختلف نوعیت کے تحفظات رکھنے کے باوجود ریاستی اداروں خاص طور پر پاک فوج اور عدلیہ پر براہ راست اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کا حملہ نہیں کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی واقعات کو پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی کا نقطہ عروج سمجھا جا سکتا ہے۔ اس دن پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے بیرون ملک سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اہم ترین اہداف کی باضابطہ نشاندہی کی۔ جس ہجوم نے راولپنڈی جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور فیصل آباد میں واقع آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ بیرون ملک سوشل میڈیا اکاونٹس نے ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو انتظامی سپورٹ بہم پہنچانے والوں کا بھی ساتھ دیا۔
سید محمد علی نے کہا کہ عدلیہ کو سیاسی اور قانونی معاملات میں فرق کرکے آئین اور قانون کے مطابق شفاف انداز میں 9 مئی مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے تاکہ پاکستان کے سوشل کنٹریکٹ اور قانون کی عملداری کے ذریعے سے ریاستی اداروں کے بارے میں بین الاقوامی کا تاثر درست کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی واقعات نے پاکستان کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی اداروں اور ریٹائرڈ افسران کے اندر پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں جو غلط فہمی پائی جاتی تھی وہ دور ہو گئی۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن 9 مئی واقعات کے بعد ریاست اور ریاست مخالف گروہوں کے درمیان سرخ لکیر کھنچ گئی ہے جس کو پار کرنے کے طویل المعیاد کاوشوں کی ضرورت ہے۔