9 مئی 2023 کو ہر لحاظ سے پاکستان میں ایک سیاہ دن کےطور پر یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے ہر ذی شعور کے نزدیک یہ ایک سیاہ دن تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو اسلام آباد کی ایک عدالت کے احاطے سے پیرا ملٹری دستوں نے گرفتار کیا تو کئی شہروں میں ملٹری تنصیبات اور کینٹس پر حملے کئے گئے۔ جلاؤ گھیراؤ نے پورے ملک کو ایک خاص کیفیت میں دھکیل دیا۔ اس منحوس کیفیت سے آج ایک سال گزرنے کے باوجود ہمارا ملک پوری طرح سے نہیں نکل سکا۔
اپریل 2022 میں جب عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو یہ ان کے لیے سیاسی طور پر ایک دھچکا تھا جس کے بعد نہ وہ خود سنبھلے نہ انھوں نے ملک کے حالات نارمل ہونے دیے۔ آج بھی پاکستان ایک ہیجانیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ حالانکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومتیں وجود میں آچکی ہیں۔ گو کہ وہ خود تا حال جیل میں مقید ہیں مگر عمران خان کی پارٹی مرکز میں ایک مضبوط اپوزیشن کی شکل میں موجود ہے جبکہ خیبر پختون خواہ میں تحریک ِانصاف کی حکومت ہے۔
9 مئی 2023 کی شام لاہور میں جو کچھ ہوا اس کا آنکھوں دیکھا احوال ایک چشم دید گواہ کی زبانی سُنا تو ریکارڈ کر لیا۔ چشم دید گواہ ایک صاحبِ مطالعہ اور صاحب الرائے شخص ہیں۔ وہ ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، آپ فرض کرلیں کہ ان کا نام پروفیسر کمال ہے۔ 9 مئی 2023 کے بعد جب مظاہرین کے خلاف ویڈیو اور جیو فینسنگ کے ذریعے کارروائی کا آغاز ہوا تو پروفیسر کمال نے اپنا فون بدل لیا اور اپنی جگہ بھی۔ پروفیسر صاحب اس احتجاج کا حصہ نہیں تھے بلکہ وہ ایک عام شہری کے طور پر اس سارے معاملے کو دیکھتے رہے اور کئی درجن تصاویر اور ویڈیوز بھی انھوں نے بنائیں۔ بہرحال ان سے ہونے والی گفت گو پیشِ خدمت ہے۔
“9 مئی کی شام سب کو ملکی صورتِ حال کا ندازہ تھا۔ پانچ ساڑھے پانچ شور سن کر گھر سے باہر آیا کہ دیکھوں کیا ہو رہا ہے؟
بے تحاشا لوگ شیر پاؤ پُل سے اُتر کر کینٹ میں داخل ہو رہے تھے۔ چیک پوسٹ پر عموماً چھ سات فوجی ہوتے ہیں مگر اس وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے۔ اندازہ ہے کہ دو تین گھنٹوں سے ہجوم کی یہی کیفیت تھی۔بعد میں علم ہوا کہ لوگ پہلے لبرٹی چوک میں اکٹھے ہوتے رہے اور پھر کینٹ کی طرف رُخ کر لیا۔
میں نے دیکھا کہ بے شمار لوگ گروہ در گروہ آتے جا رہے ہیں۔ گاڑیوں کی بھی بہت لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ظاہر ہے یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ کون سی گاڑی کسی ورکر کی ہے یا کوئی راہ گیر ٹریفک میں پھنس گیا ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے اندازہ ہے کہ 10 ہزار لوگ گزر کے گئے ہوں گے۔ جو لوگ فورٹریس سٹیڈیم یا کیولری گراؤنڈ کی طرف سے آئے ان کی تعداد کا علم نہیں۔
ہجوم میں نوجوان زیادہ تھے۔ خواتین کی تعداد 5 فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔ کچھ لوگ پورے خاندان کی شکل میں آرہے تھے، جیسے باپ بھی ہے ماں بھی اور ساتھ نوجوان اولاد بھی۔ دیکھنے میں یہ لوگ کھاتے پیتے لگتے تھے۔ باقی 95 فی صد گرم جوش پارٹی کارکُن تھے۔
معروف پارٹی راہ نماؤں میں سے مراد راس کو شیزان کے باہر دیکھا کہ وہ وہاں کھڑے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے، میں بھی تقریباً 2 کلو میٹر آگے چلا گیا۔ کور کمانڈر ہاؤس جو جناح ہاؤس کے نام سے بھی معروف ہے، وہ فورٹریس سٹیڈیم سے اگلے چوک اور گرجا چوک کی بائیں طرف مرکزی سڑک پر ہی واقع ہے۔ وہاں جناح ہاؤس کا بورڈ بھی لگا ہوتا تھا۔ چونکہ ہجوم بہت تھا لہذا وہاں پہنچتے پہنچتے ایک سوا گھنٹہ لگ گیا۔
تحریک انصاف سے میرا کوئی تعلق تھا نہ لینا دینا، بس ایسے ہی تجسس کی وجہ سے میں بھی چلتا گیا۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ لوگ توڑ پھوڑ کریں گے۔ خیال تھا کہ بس احتجاج کر رہے ہیں اور کسی جگہ دھرنا وغیرہ دیں گے۔
بعد میں یہ بات بھی نکلی کہ یہ لوگ ایجنسیوں وغیرہ کے لوگ تھے۔ ذاتی طور پھر تو کسی کے بارے میں علم نہیں لیکن دیکھنے اور شکل وشباہت میں 100 فی صد یہ لوگ تحریک ِ انصاف کے کارکن ہی لگے۔
جب 7 بجے کے قریب جناح ہاؤس کے سامنے پہنچا تو دیکھا کہ کوئی روک ٹوک نہیں اور لوگ اندر باہر آ جا رہے ہیں۔ بعد میں سوشل میڈیا یا ٹی وی پر دیکھا تو علم ہوا کہ لوگ 3 بجے کے قریب ہی جناح ہاؤس کے اندر گُھس چُکے تھے۔ وہاں تماشا لگا ہوا تھا۔ بہت دھواں تھا، لوگوں نے ٹائروں کو آگ لگائی ہوئی تھی۔ میں تو ڑ پھوڑ کے حق میں نہیں لہذا مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں جناح ہاؤس کے اندر جاؤں۔ باہر بہت بڑا مجمع تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی سٹیج بنا رہے ہیں۔ ان کے پاس مائیکرو فون، سپیکر اور لائٹس وغیرہ بھی تھیں۔ شغل میلے کی کیفیت تھی۔ البتہ ایک چیز جو میں نے نوٹ کی کہ بہت سے لوگ ڈرے ہوئے بھی تھے۔ کیوںکہ یہ لوگ جناح ہاؤس یا مال آف لاہور کے باہر جا کر ٹھہر نہیں رہے تھے۔ بہت سے لوگوں کو تیزی سے واپس آتے بھی دیکھا۔ مجھے لگا کہ بہت سے لوگوں کو احساس تھا کہ وہ ایک خطرناک حد میں پاؤں رکھ چُکے ہیں اور یہ ان سے غلط ہو گیا ہے۔
ایک اور اہم بات جس کا مجھے ذاتی طور پر علم ہوا، وہ یہ کہ 2 لوگوں کو جناح ہاؤس میں گولیاں بھی لگیں۔ ایک لڑکا تو میرے ملنے والوں کا عزیز تھا۔ میرے سامنے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ البتّہ مجھے دوست کا فون آیا کہ ایک عزیز کو گولی لگ گئی ہے اور ہسپتال جانا ہے۔ جب ہم میاں میر ہسپتال پہنچے تو علم ہوا کہ دو زخمی لڑکوں کو یہاں لایا گیا ہے۔ میرے دوست کے عزیز کو کنپٹی پر گولی لگی تھی اور وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔ دوسرا بھی غالباً جان کی بازی ہار گیا۔ یہ ایف آئی آر میاں عبدالرشید اور میاں اسلم اقبال پر درج ہوئی کہ یہ ان کے گارڈز سے گولیاں لگی ہیں۔ یہ ایف آئی آر بعد میں بہت مشہور بھی ہوئی۔
وہاں پہرے پر فوجی ضرور موجود ہوئے ہوں گے لیکن وہ تو گاڑیاں وغیرہ چیک کرنے کے لئےکھڑے ہوتے ہیں۔ اگر بہت سے لوگ آ جائیں تو یہ نہیں ہوسکتا ان کو گولیاں مار دی جائیں۔ لوگ بہت زیادہ تھے، فوجی مزاحمت نہیں کر سکتے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت زیادہ خون خرابے کا خدشہ تھا۔ فوج کی طرف سے مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ بہت دانش مندانہ تھا۔
جو لوگ کہتے ہیں مظاہرین کو کیوں نہیں روکا گیا۔ ان کو اندازہ ہی نہیں کہ صورتِ حال کیا تھی۔ یہ کوئی اچھا لمحہ نہیں تھا۔ محسوس ہورہا تھا کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اچھا نہیں ہے۔ ہجوم کی نفسیات بہت عجیب ہوتی ہے۔ جس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں تھا سوائے عمران خان کے اور وہ قید تھے۔ باقی لیڈر اس وقت کارکن بنے ہوئے تھے۔
کچھ آرمی کمپاؤنڈز کی طرف سے ہوائی فائرنگ کی آوازیں بھی آئیں۔ ایسا کرنا اچھا فیصلہ تھا تاکہ مظاہرین ادھر کا رُخ نہ کر لیں۔ مظاہرین نے بھی جناح ہاؤس سے آگے جانے کی کوشش نہیں کی۔
میرے سامنے کسی نے گاڑی کو آگ نہیں لگائی لیکن میں نے جلی ہوئی گاڑیاں راستے میں ضرور دیکھیں۔ اس وقت بھی میں اندازہ کر رہا تھا کہ آج کے واقعات کے نتائج کچھ ہٹ کر ہوں گے۔
میری طرح کچھ اور لوگ بھی ویسے دیکھنے کے لیے وہاں ضرور موجود ہوں گے۔ اپنی طرف سے میں نے احتیاط ضرور کی مگر جیو فنسنگ وغیرہ کے بعد بھی مجھے کسی نے تنگ نہیں کیا اور نہ کسی قسم کا رابطہ کیا۔ بہرحال 9 مئی کو پیش آنے والے واقعات کو افسوس ناک ہی کہا جا سکتا ہے۔”
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔