بلوچستان میں شناخت کی بنیاد پر قتل کیوں ہورہے ہیں؟ انوار الحق کاکڑ کا وی نیوز کو خصوصی انٹرویو

ہفتہ 11 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ وہ چاہیں تو آج بھی شہباز کابینہ کے رکن بن سکتے ہیں ہوسکتا ہے وزیراعظم ان کے لیے کوئی کردار دیکھ لیں جس میں وہ بہتر کر دار ادا کر سکیں۔

مزید پڑھیں

وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان رہے ہیں اس عہدے کے بعد ایسا کونسا عہدہ رہ جاتا ہے جس کی انہیں خواہش ہو؟ چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی بڑے عہدے ہیں مگر وہ چونکہ کسی بڑی جماعت کا حصہ بننے کو تیار نہیں تھے، اس لیے ان کو آئینی پوزیشن نہیں ملی، وہ مشکل کام تھا تاہم کابینہ کا رکن بننا آسان کام ہے۔ ‘میں نے کسی شخص یا جماعت کے پاس جا کر اس خواہش کا اظہار نہیں کیا صرف میڈیا پر رپورٹس چلیں‘۔

سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ وہ فارم 47 کے حوالے سے بیان کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حنیف عباسی سے بات گندم کے بحران کے حوالے سے ہورہی تھی، لیکن ایک گروہ چاہتا ہے کہ اس ملک میں انتخابات کو متنازع بنائے اس لیے میرے حنیف عباسی کے ساتھ مکالمے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔

گندم کی زیادتی اور سستا آٹا کیسا اسکینڈل ہے؟

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گندم بحران کے حوالے سے ان پر الزام تراشی کرنے والے لوگ بنیادی باتیں نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیشہ ملک میں گندم کی کمی کو بحران کہا جاتا ہے اس دفعہ گندم کی زیادتی کو بحران کہا جا رہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سالوں سے ملک میں ہر سال گندم کی پیداوار ضرورت سے کم ہوتی ہے اور اس طرح ہر سال ملک میں تقریباً ڈھائی سے ساڑھے 3 ملین میٹرک ٹن کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے گندم امپورٹ کرنی پڑتی ہے۔ اس بار گندم امپورٹ کرنے کی تجویز آئی تو انہوں نے سرکاری ادارے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان لمیٹڈ (ٹی سی پی) کے ذریعے امپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ سرکاری ادارہ جو پہلے ہی 297 ارب روپے کا مقروض ہے اس پر قرضوں کا مزید بوجھ نہ پڑے اور معاملہ پرائیویٹ سیکٹر پر چھوڑ دیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے پرائیویٹ سیکٹر کو کوئی اجازت نامہ نہیں دیا، کیونکہ سنہ 2019 میں عمران خان کی حکومت نے ایک ایس آر او کے تحت گندم کی امپورٹ کے لیے اجازت نامے کی شرط ختم کر دی تھی۔

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر پر ریگولیٹری ڈیوٹی نہیں لگائی گئی مگر ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں پرائیویٹ سیکٹر نے 78 ملیں ڈالر قومی خزانے میں جمع کروایا، جبکہ خریداری کے لیے ڈالر کے ذریعے ادائیگی حکومت نے نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر نے خود کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے آٹا ملک میں سستا ہوگیا یہ کیسا اسکینڈل ہے؟

’اللہ کے فضل سے کوئی کرپشن نہیں کی‘

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ گندم کی زیادہ سپورٹ پرائس ان کی حکومت نے نہیں بلکہ ان سے پچھلی حکومت( شہباز شریف حکومت) نے رکھی تھی اس میں ان کا کیا قصور تھا؟ میرا کمیشن کہاں سے آگیا؟

ان کا کہنا تھا کہ 4 لاکھ ٹن اضافی گندم سوا 3 دن کی خوراک ہے۔ انہوں نے اللہ کے فضل سے کوئی کرپشن نہیں کی۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گندم کی سپورٹ پرائس کے حوالے سے حکومت کی طرف سے خریداری نہ کرنے پر کسانوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت بینکوں کے قرضے کم کرنے کی خواہش کی وجہ سے گندم نہیں خرید پا رہی، تاہم اسے اچانک اس طرح کے اقدامات کے بجائے آہستہ آہستہ قرضے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی اور چھوٹے کسانوں کی نشاندہی کرکے ان کو ریلیف پہنچانا چاہیے تھا۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’ انہیں عرض کرتا ہوں کہ زرعی اصلاحات اور قرضوں کے خاتمے کا عمل مرحلہ وار کریں‘۔

’شہباز حکومت کے لیے پُر امید ہوں‘

شہباز حکومت کے مستقبل کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا وہ پُر امید ہیں اور انہیں حکومت چلتی نظر آتی ہے۔ انوار الحق کاکڑ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے ارادے ٹھیک ہیں اور کم از کم احساس موجود ہے کہ ملک کو درست سمت میں ڈالنا ہے ورنہ پورا نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔

فیصل واوڈا کی پیشگوئیوں کے حوالے سے کیے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فیصل ان کے دوست ہیں اور وہ ان کے ساتھ آزاد سینیٹرز کے گروپ میں بھی شامل ہیں، مگر حکومت کو پورا موقع ملنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تنقید مثبت ہو جس کا مقصد اصلاح احوال ہو۔

’عمران خان سے قربت تھی مگر۔۔۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ان کی قربت رہی ہے اور وہ ان کے ترجمانوں کی ٹیم میں تھے حالانکہ وہ پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ اتحادی جماعت باپ سے تعلق رکھتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ان کے بارے میں مثبت رائے رکھتا تھا مگر اب میری رائے مختلف ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے پتا لگ گیا ہے کہ سمجھداری کی آواز کو وہ (خان صاحب کے سامنے) خواہ جتنا بھی دہرائیں فائدہ نہیں ہوگا‘۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا مگر میں نے ووٹ اس لیے نہیں دیا کہ یہ جماعت اور اس کے سربراہ جی ایچ کیو پر چڑھ دوڑیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو چاہتا تھا کہ پاکستان کا نظام صحت اور تعلیم بہتر ہو اور بہتر سماجی نظام قائم ہو مگر نہ صرف ان سے توقعات پوری نہیں ہوئیں بلکہ وہ ایسے ردعمل کے سلسلے میں آگئے جس سے نظام کو چیلنج کرنا شروع ہو گئے۔

ان کا کہنا تھا 9 مئی کو ریاست کو چیلنج کیا گیا جوکہ انتہائی غلط اقدام تھا۔ گرفتاری پر ایسا احتجاج دنیا میں کہیں وزیراعظم کی گرفتاری پر نہیں ہوا، حالانکہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم کی بھی گرفتاری ہوئی تھی، پاکستان میں بھی ہوئی ہے، اٹلی میں بھی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کل کو میری گرفتاری ہو تو میں کیا کروں گا؟ کیا میں لوگوں دعوت دوں گا کہ آئیں چڑھ دوڑیں، آگ لگا دیں؟ گرفتاری کی مزاحمت تو ریاست کے خلاف قدم ہے۔ قانون میں ریلیف موجود تھا اس کی طرف جاتے‘۔

اس سوال پر کہ کیا عمران خان کو ریاست معاف کر سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ معافی کے لیے احساس ندامت ضروری ہے۔

آرمی چیف کو توسیع ملنی چاہیے؟

اس سوال پر کہ کیا وہ وزیراعظم ہوتے تو موجودہ آرمی چیف کو توسیع دیتے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہاں! مگر یہ سوال ہاں یا ناں کا نہیں، بلکہ اس کو سیاسی کے بجائے سیکیورٹی کے زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ ابھی اس میں ایک سال پڑا ہے اور یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں تو توسیع کے نئے قانون سے بھی متفق نہیں ہوں، کیونکہ یہ سیکیورٹی کے بجائے سیاسی زاویے سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اگر آرمی چیف کو 3 سال کی توسیع دے کر بھی آخری دن جنگ چھڑ جائے تو کیا 10 دن کی بھی توسیع نہیں دی جاسکتی؟

’بلوچستان کا مسئلہ بھوک نہیں جغرافیے کی تبدیلی ہے‘

اس سوال پر کہ بلوچستان سے وزیراعظم، چیف جسٹس اور چیئرمین سینیٹ کی تقرری کے باجود صوبے کے مسئلے کیوں حل نہیں ہوتے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ صوبے کا مسئلہ بھوک، افلاس یا بیروزگاری نہیں ہے، کیونکہ یہ مسائل تو راجن پور میں رہنے والے بلوچ قبائل، لُنڈ، لغاری، کھوسہ ، گورچانی، قیصرانی کو بھی ہیں، مگر وہ کیوں قتل و غارت نہیں کرتے؟

انہوں نے کہا کہ مسئلہ بلوچستان میں یہ ہے کہ ایک گروہ شناخت کی بنیاد پر نیا جغرافیہ چاہتا ہے، وہ بھوک اور پسماندگی کی وجہ سے نیا جغرافیہ نہیں چاہتا کیونکہ بھوک اور پسماندگی تو گلگت بلتستان میں بھی ہے، وہ آپ کو رو رو کر کہتے ہیں کہ انہیں پاکستان چاہیے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ گروہ کھل کر کہتا ہے کہ ہٹلر کے جرمنی کی طرح ایسا علاقہ ہو جس میں صرف بلوچ رہتے ہوں اور کوئی نہ رہے اور اس کام کے لیے مرنا اور مارنا بھی جائز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کی طے شدہ پوزیشن ہے کہ تشدد کے ذریعے جغرافیہ بدلنا چاہتے ہیں، مگر چند صحافی اور کارکنان ان کے حوالے سے گمراہ کن تجزیے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کل انہوں نے گوادر میں 7 حجام شہید کیے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp