اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف مبیّنہ بیٹی ٹیریان کو کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے کے خلاف نااہلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل حامد شاہ نے دلائل مکمل کیے تو عدالت نے سماعت 29 مارچ تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب طاہر شامل ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ جبکہ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا اور ابوذر سلمان نیازی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
عدالت نے گزشتہ سماعت میں الیکشن کمیشن سے ضمنی انتخابات میں عمران خان کے جمع کرائے گئے بیان حلفی کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ بیانِ حلفی فیصل آباد، کرم ایجنسی، مردان، چارسدہ، پشاور، ننکانہ صاحب اور کورنگی کراچی کے ریٹرننگ آفیسرز کے پاس ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی اور بیان حلفی 2 دن میں جمع کرا دیں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ معلومات کے مطابق بیانِ حلفی اور کاغذاتِ نامزدگی وہی ہیں جو 2018ء میں جمع کرائے گئے تھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نااہلی پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے درخواست قابلِ سماعت ہونے پر بات کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے زیرِ کفالت بچوں کی فہرست دینی ہے اور اگر بچے زیرِ کفالت نہیں ہیں تو پھر کیا کریں گے۔
درخواست گزار کے وکیل حامد شاہ نے کہا کہ اس کے لیے ہمیں بیانِ حلفی پڑھنا ہے کہ آیا کوئی چیز جان بوجھ کر چھپائی گئی ہے۔ خواجہ آصف کیس میں ہائیکورٹ نے آبزرویشن دی تھی کہ جان بوجھ کر غلطی نہیں کی گئی تو نااہلی نہیں ہوتی۔
حامد شاہ نے کہا کہ فیصل واؤڈا کا کیس اس سے بالکل مختلف ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ فیصل واؤڈا کیس میں غیر متنازع حقائق تھے اور فیصل واؤڈا نے انہیں تسلیم کیا تھا۔
حامد شاہ نے کہا کہ پہلے زیرِ کفالت بچوں کے حوالے سے حبیب اکرم کیس پڑھیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا حبیب اکرم کیس میں کہا گیا ہے کہ زیرِ کفالت میں کوئی بھی بھانجا، بھتیجا یا والدین ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا زیرِ کفالت کا مطلب مالی کفالت ہے۔ وکیل حامد شاہ نے عمران خان کی جانب سے ضمنی انتخابات میں جمع کرایا گیا بیانِ حلفی پڑھ کر سنایا۔ کہا عمران خان نے بشری بی بی، قاسم خان اور سلیمان خان کو اپنے زیرِ کفالت کہا ہے۔
حامد شاہ نے کہا یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بشری بی بی، قاسم اور سلیمان مالی طور پر عمران خان کے زیرِ کفالت نہیں۔ اگر وہ زیرِ کفالت نہیں تو ان کے نام کیوں لکھے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر زیرِ کفالت مالی طور پر زیرِ کفالت نہیں تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ایک شخص نے الیکشن لڑا اور اس نے کہا کہ بیوی کے علاوہ کسی کا نام زیرِ کفالت میں نہیں لکھ رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مالی طور پر زیرِ کفالت نہیں تو ان کے نام نہ لکھنے میں کوئی غلطی نہیں۔ عدالت نے پوچھا کیا زیرِ کفالت کا نام نہ لکھنا ایک غلطی ہے۔
حامد شاہ نے ندا کھوڑو مقدمے کا فیصلہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں بھی بندے نے بیٹی کا نام ظاہر نہیں کیا تھا لیکن عدالت نے کہا کہ بیٹی ہمیشہ والد کی کفالت میں آتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عمران خان بیٹی کو تسلیم بھی کرتے ہیں تو عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ درخواست گزار یہ ثابت کرے کہ عمران خان نے بیٹی کو تسلیم کیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل حامد شاہ سے سوال کیا کہ آپ نے کو وارنٹو درخواست دائر کی ہے۔ آپ نے بتانا ہے کہ عدالت اس معاملے میں کس طرح اپنے اختیارات استعمال کرے؟
درخواست گزار کے وکیل حامد شاہ نے کہا کہ عدالت نے کسی کے پبلک آفس ہولڈ کرنے سے متعلق ساری کوالیفیکشنز دیکھنی ہیں۔ حامد شاہ نے کو وارنٹو رٹ میں عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے مختلف عدالتی نظائر پیش کیے۔
حامد شاہ نے عمران خان کی بچی کی ولدیت کے حوالے سے پہلے دائر کی گئی ایک درخواست کا حوالہ بھی دیا۔ جس کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ عدالت کو کسی کی ذاتی زندگی کی تحقیقات کے علاوہ بہت سے کام ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ٹھیک کہا تھا۔
حامد شاہ نے کہا پہلے اس حوالے سے جتنی درخواستیں آئیں وہ تکنیکی بنیادوں پر مسترد ہوئیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس کیس میں متاثرہ فریق تو وہ بچی بنتی ہے اور اسی نے کہنا ہے کہ عمران خان میرے والد ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل حامد شاہ نے دلائل مکمل کے تو عدالت نے سماعت 29 مارچ تک ملتوی کردی۔