موسمیاتی تبدیلیاں کس طرح غریب کسانوں کے چولہے بجھا رہی ہیں؟

اتوار 12 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مائی فرزانہ حسرت سے نیلے مگر گرمی برساتے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں اور سوچوں میں گم تھی کہ کاش یہ دھوپ اپریل میں پڑتی اور اتنی غیر معمولی بارشیں نہ ہوتیں تو اس کی گز بھر کی کھیتی جو اس بیوہ کے سال بھر کا آٹا پورا کرتی تھی وہ یوں موسم کے ہاتھوں برباد نہ ہوتی۔

فرزانہ ایک ادھیڑ عمر بیوہ ہے جو کہ چک شہزاد کے ایک دیہاتی علاقے میں 2 کمرے کے مکان میں رہتی ہے مکان کے آگے ہی اس کا ایک کھیت ہے جس میں وہ اپنے لیے سال بھر کی گندم اُگا کر اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جو کہ شادی شدہ ہے۔

مائی فرزانہ کی ایک گز کھیتی بھی ژالہ باری کی نذر ہو گئی

اس سال پاکستان میں مارچ اور اپریل میں غیر معمولی بارشیں اور ژالہ باری ہوئی  جس کی وجہ سے گندم کی تیار فصل کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ مائی فرزانہ جس کا گندم کا ڈرم منہ، منہ تک بھر ہوا ہوتا تھا، اس بار بمشکل آدھا ہی بھر پایا  کیوں کہ اس کی فصل بھی ژالہ باری کی نذر ہو گئی۔

یہ صرف اک فرزانہ کی کہانی تھی، لیکن ایسی بے شمار کہانیاں پنجاب کے ہر دوسرے کسان کی بھی ہیں جو ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

بارشوں نے پنجاب کے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا

پاکستان میں ہر سال بے موسمی بارشیں فصلوں کو تباہ کرتی ہیں۔ جن سے ملک میں نہ صرف غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوتی ہے، بلکہ پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت مزید بدتر ہو جاتی ہے۔ اپریل کے آخری ہفتے میں ہونے والی بارشوں نے بلخصوص پنجاب کے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

بارشوں سے 23 ارب روپے مالیت کی گندم کو نقصان پہنچا

پنجاب کے محکمہ زراعت کے حکام کا اندازہ ہے کہ صوبے کے کئی اضلاع میں حالیہ شدید بارشوں اور ژالہ باری سے 23 ارب روپے مالیت کی گندم کی 5 سے 6 فیصد فصل کو نقصان پہنچا ہے۔

مگر یہ اندازہ ان کسانوں کی فصلوں کا ہے جو بڑے پیمانے پر گندم کاشت کرتے ہیں۔ ان میں وہ افراد شامل نہیں ہیں، جو صرف سال بھر کی دال روٹی چلانے کے لیے اپنی چند گز کی زمین پر گندم اگا کر گزارا کرتے ہیں ور ملک میں غربت کی لکیر سے نیچے جانے والے افراد میں یہ طبقہ بہت تیزی سے شامل ہو رہا ہے۔

پاکستان میں ایک سال میں 5 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی

عالمی بینک کی جانب سے جاری کی گئی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک سال کے دوران 5 فیصد سے اضافے کے ساتھ پاکستان میں غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد ہو گئی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بڑھنے سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ 25 لاکھ ہوگئی ہے۔

دوسری جانب ملک میں ایسے افراد کی تعداد ساڑھے 9 کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے جن کی یومیہ آمدن 3.20 ڈالر یعنی تقریباً 950 روپےسے بھی کم ہے۔ یہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی سے بھی زیادہ حصہ بنتا ہے۔

مزید 1 کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ

واضح رہے کہ پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ 2024 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2022-23 میں غربت کی شرح میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا اور مزید ایک کروڑ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستانی معیشت میں بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے نقصانات سے پاکستان ابھی نمٹا نہیں ہوتا کہ اگلے برس پھر سے وہ آفات پاکستان کو آ گھیر لیتی ہیں اور ملک کے زرعی شعبے سے جوڑے ہر چھوٹے بڑے کسان کو متاثر کرتی ہیں۔

حکومت کسانوں کے لیے فصل کی انشورنس کا نظام وضح کر سکتی ہے

ماہر معاشیات اور زراعت کاظم سعید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کو تو ہماری حکومت نہیں روک سکتی لیکن فصل کی انشورنس کا نہایت قابلِ اعتبار نظام بالکل تیار ہے، اس کو رائج کرنا اور چھوٹے کسانوں کے پریمیم حکومت کو ادا کرنا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے کسانوں کو بچانے کا ذریعہ ہے۔

موسمیاتی آفات سے متاثرہ کسانوں کو ریلیف ملنا چاہیے

ماحولیات پر 2006 سے کام کرنے والے اور ماہنامہ فروزاں کے مینیجنگ ڈائریکٹر محمد توحید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کہا کہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسی حکمت عملی وضع کریں جس کا مقصد چھوٹے پیمانے پر کسان جو موسمیاتی آفات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں انہیں ریلیف فراہم کرے۔

اس میں تحصیل کی سطح پر ہونے والے نقصان کا ہر طرح سے تفصیلی ڈیٹا اکٹھا کرنا شامل ہے۔ اس کے بعد موسمیاتی فنانسنگ میکانزم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران متاثرہ کسانوں کو نقصان کے فنڈز اور دیگر فوائد پہنچا سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر زرعی برادریوں پر موسمیاتی تبدیلی کے سماجی و اقتصادی اثرات کو کم کرنے کے لیے سہولت فراہم کرتا ہے، اس طرح اس شعبے کے اندر لچک اور پائیداری کو فروغ ملتا ہے۔

موسمیاتی تغیرات سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث غربت کا شکار ہونے والے افراد کے  لیے کام کرنے والے محمد عثمان نے بتایا کہ پاکستان میں ہر برس موسمیاتی تغیرات سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر بہت ہی چھوٹے طبقے کے کسان بعد میں بھیک مانگنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہر طرح سے محتاجی کا شکار ہو جاتے ہیں اور 2 وقت کی روٹی کے لیے بھی ان کے پاس کچھ نہیں بچتا۔

حکومت کو متاثرہ کسانوں کے لیے نظام وضح کرنا ہو گا

پاکستان میں جہاں ایک جانب آبادی میں اضافے اور ملک کے معاشی حالات کی وجہ سے غربت کی شرح بڑھ رہی ہے وہیں دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیاں سے اس شرح میں دگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے لیے حکومت کو جلد از جلد کسان دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی اور ان تمام کسانوں کے لیے کوئی نظام بنانا ہوگا تا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کے بعد کوئی کام کاج کر سکیں اور محتاجی سے بچ پائیں ورنہ پاکستان میں غربت کی بڑھتی شرح کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp