12 مئی 2007 وہ دن تھا جب وقت کے معزول چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری کو سندھ ہائیکورٹ میں وکلا سے خطاب کرنا تھا۔ اس سلسلے میں اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے استقبال کی تیاریاں جبکہ حکومتی حمایت یافتہ جماعتوں کی جانب سے رکاوٹ ڈالنے کی تیاری کی گئی۔
اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جب کراچی پہنچے تو پھر جو جہاں تھا وہیں پھنس کر رہ گیا، شہر میں گھمسان کا ایسا رن جما کہ شہر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی، جو گھروں سے باہر تھے لواحقین ان کی تلاش میں اسپتالوں اور سردخانوں کا رخ تو کرنے لگے لیکن دل میں ایک خوف سا طاری تھا کہ نجانے واپسی ہو پائے گی یا نہیں۔
مزید پڑھیں
استقبال کرنے والی جماعتیں اور نہ کرنے والی جماعت آمنے سامنے آگئیں، اس موقع پر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس دکھائی دے رہے تھے جس کے نتیجے میں 50 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔
خوف و دہشت کے اس دن کو کراچی والے سانحہ 12 مئی کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اس دن بننے والے مقدمات کو دہشتگردی کی دفعات کے ساتھ درج کیا گیا تھا اور اس وقت بھی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں 19 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
سانحہ 12 مئی کو 17 سال گزر جانے کے باوجود ذمہ داروں کو سزائیں نہ ہوسکیں، پولیس کی جانب سے گواہوں کو پیش کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اس کے علاوہ ٹھوس شواہد بھی پیش نہیں کیے جارہے جس کی وجہ سے 18 سے زیادہ ملزمان ضمانتوں پر ہیں۔
پولیس کے غیر سیاسی ہونے تک غیرجانبدارانہ تفتیش ممکن نہیں، محمد فاروق ایڈووکیٹ
وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پولیس جب تک اس شہر میں غیر سیاسی نہیں ہو جاتی اس وقت تک تفتیش غیرجانبدارانہ نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہاکہ ویڈیوز موجود ہیں اس وقت تو میڈیا بھی تھا اور سب ٹی وی اسکرینز پر دکھایا بھی گیا لیکن اس کے باوجود 17 برس گزر گئے اور اب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی کو سزا ہوگی یا نہیں۔
شواہد پیش کرنا استغاثہ کا کام ہے، عامر نواز وڑائچ
کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر نواز وڑائچ نے کہاکہ ملزموں کے وکلا تو عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں، اب استغاثہ کا کام ہے کہ وہ شواہد عدالتوں کے روبرو پیش کرے تاکہ جرم کرنے والوں کو دنیا سزا ہوتے ہوئے دیکھ سکے۔
پولیس کے مطابق ملزموں کی جانب سے قتل وغارت، فائرنگ و پرتشدد واقعات اور شہر میں دہشتگردی کی گئی تھی جس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے، 7 مقدمات میں 2016 میں 20 ملزموں کو گرفتار کیا گیا جن میں اس وقت کے میئر کراچی وسیم اختر، محمد اسلم عرف کالا اور انوار سمیت دیگر شامل ہیں۔ ان مقدمات میں وسیم اختر، عمیر صدیقی سمیت 21 ملزموں پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔
12 مئی کے مقدمات میں 40 سے زیادہ ملزمان مفرور
12 مئی کے مقدمات میں 40 سے زیادہ ملزمان مفرور ہیں جن کے کئی بار ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود پولیس ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی جس کے باعث ان مقدمات میں مزید پیش رفت نہ ہوسکی۔
مفرور ملزموں میں متحدہ کے ایم پی اے کامران فاروقی، محمد عدنان، اعجاز شاہ عرف گور چانی سمیت دیگر شامل ہیں، مقدمات کی آئندہ سماعت 25 مئی کو کی جائے گی اور گواہان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔