چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے۔ غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف از خود نوٹس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں
دوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائر کرنے سے ہی مکرگئے۔ سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022 میں دائر کی گئی تھی۔
چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال، ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے، کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے۔
درخواست گزار ایم آصف نے عدالت میں موقف اپنایا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم کیوں سرپرستی کریں۔
ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے عدالت کو بتایا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی انکا انتقال ہوچکا ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے کہ ہم جانچ کے لیے معاملہ پنجاب فرانزک لیبارٹری کو بجھوا دیتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستاندوران سماعت چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کے وکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس کا مکالمہ بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپکو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر عدالت میں پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا۔
’ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں، وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے‘۔
چیف جسٹس بولے کہ کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہوا ہے، گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہو جاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارے ذرائع ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکی جاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتا تو ہتک عزت کے کیس میں جیبیں خالی ہو جاتیں۔
مطیع اللہ جان کیس میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس کا شدید برہمی کا اظہار
چیف جسٹس نے ایس ایس پی انویسٹگیشن کو روسٹرم پر بلا لیا اور بولے کہ سامنے آؤ، واقعے کی ریکارڈنگ موجود ہے اغوا کاروں کا سراغ کیوں نہیں ملا؟
ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے جواب دیا کہ ہماری سی سی ٹی وی موجود نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس بولے کہ جھوٹ بولنے پولیس میں آئے ہو؟ یہ کیا بات کر رہے ہو؟ پولیس یونیفارم کی توہین کر رہے ہو، ریکارڈنگ موجود ہے اور کہہ رہے ہو ریکارڈنگ نہیں۔
چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ پڑھے لکھے بھی ہو یا نہیں؟ ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے جواب دیا کہ جی سر، پڑھا لکھا ہوں۔ چیف جسٹس بولے کہ کتنے سال ہوگئے ہیں پولیس میں؟
ایس ایس پی نے بتایا کہ مجھے پولیس میں 13 سال ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے آفیسر کو ہٹایا کیوں نہیں جا رہا؟ فوری فارغ کریں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معافی کیوں، ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے کارروائی کریں۔ میں بالکل مطمئن نہیں ہوں ان سے، یہ مذاق بنا رہے ہیں۔
چیف جسٹس اور آئی جی اسلام آباد کا مکالمہ
مطیع اللہ جان اغوا کیس میں آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سربراہ پولیس سے مخاطب ہوتے ہوئے دریافت کیا کہ ’آئی جی صاحب کیا کر رہی ہے آپ کی پولیس‘۔
اس پر آئی جی نے عرض کی کہ ’سر ہمیں کچھ وقت دے دیں میں خود اس کیس کو دیکھوں گا‘۔ علی ناصر رضوی نے مزید کہا کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اچھا آپ ہمیں سکھا رہے ہیں کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ کل میڈیا میں ہیڈلائن ہوگی کہ آئی جی اسلام آباد نے کہہ دیا کوئی قانون سے بالاتر نہیں‘۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰ اسلام آباد پولیس کو کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھائیں، کینیڈا کو دیکھیں کیسے انہوں نے دوسرے ملک کے باشندوں کے خلاف تحقیقات کیں۔
انہوں ںے کہاکہ ہم لوگ اور ہمارے صحافی بہت خوش ہوئے کہ کسی اور ملک کے خلاف کینیڈا نے تحقیقات کیں مگر یہاں اسلام آباد پولیس کو خود سیکیورٹی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایس ایس پی کے ساتھ گارڈز ہوتے ہیں جیسے ان کو کسی سے خطرہ ہے ار جو پولیس کبھی ہماری حفاظت کرتی تھی اب ان کی حفاظت کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک پولیس افسر کے گرد پوری نفری گھوم رہی ہوتی ہے۔
صحافی مطیع اللہ نے عدالت کو بتایا کہ اغوا کے وقت میں نے موبائل پھینکا تھا جو پولیس لے گئی تھی لیکن پولیس نے میرا موبائل واپس نہیں کیا۔ اسد طور نے عدالت نے کو بتایا کہ ان کے موبائل بھی لے لیے گئے تھے جو آج تک واپس نہیں ہوئے۔
اسد طور نے کہاکہ مجھ پر حملہ ہوا تو وہ لوگ موبائل پر بات کر رہے تھے مگر جیو فینسنگ نہیں کی گئی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ مطیع اللہ جان کا موبائل حملہ آور ساتھ لے گئے تھے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آسان تھا اگر موبائلز کا ڈیٹا نکال لیا جاتا تو ملزمان پکڑے جاتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو شاید ڈر تھا کہ موبائل کسی ایسی جگہ نہ ہو جن کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے اب پولیس والوں کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کو کہنا پڑے گا، جیسے پولیس جے آئی ٹی بنا لیتی ہے ہم پولیس کے خلاف جے آئی ٹی بنا لیتے ہیں۔
آئی جی اسلام آبادنے کہا کہ مجھے اسلام آباد کا چارج سنبھالے تھوڑا سا وقت ہوا ہے میں خود یہ ان کیسز کی نگرانی کروں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مطیع اللہ جان اغوا کی تحقیقات کرنی والی پولیس ٹیم تبدیل ہوگی یا نہیں۔ اس پر آئی جی اسلام آباد نے مطیع اللہ جان اغوا کیس میں تفتیشی افسران تبدیل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وہ تفتیشی افسران تبدیل کر کے خود صحافیوں پر حملوں کے مقدمات دیکھیں گے۔
سپریم کورٹ نے ابصار عالم، مطیع اللہ جان ، اسد طور پر حملے کی تفتیش ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نے اسلام آباد پولیس کو 30 دن کی مہلت دے دی۔
عدالت نے اسد طور حملہ کے ملزمان کے خاکے اخبارات میں شائع کرانے، ملزمان کی گرفتاری کے لیے انعام کی رقم مقرر کر کے اشتہار دینے اور مطیع اللہ جان اغوا کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج پنجاب فارنزک لیب کو بھیجنے کا بھی حکم صادر کیا۔
عدالت نے مزید سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔