اس سال پاکستان میں گندم کی بمپر کراپ فصل ہوئی ہے لیکن اس کا فائدہ کسان کو نہیں ہوا۔ 3 اپریل کو پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قمیت 3 ہزار 9 سو روپے فی من مقرر کی گئی تھی، مگر تاحال اس ریٹ پر خریداری ممکن نہیں ہوسکی۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سال گندم کی پیداوار 3 کروڑ 21 لاکھ ٹن تک جاسکتی ہے جبکہ گذشتہ سال گندم کی کھپت 2 کروڑ 80 لاکھ ٹن تھی۔
نگران دور حکومت کے دوران 40 لاکھ ٹن گندم درآمد ہونے کے باعث وفاقی حکومت نے اپنی خریداری کا ہدف صرف 18 لاکھ ٹن رکھا ہے۔ سب سے زیادہ بری صورت حال پنجاب میں ہے، جہاں صوبائی وزیر خوراک کے مطابق 23 لاکھ ٹن درآمدی گندم گوداموں میں موجود ہے۔ لہٰذا حکومت مزید گندم خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
گذشتہ برس خریداری کا ہدف 40 لاکھ میٹرک ٹن تھا لیکن امسال ہدف مقرر نہیں کیا گیا
اس سال کسان کی طرف سے گندم کی پیدوار زیادہ لینے کی ایک وجہ پچھلے سال گندم اچھی قمیت فروخت ہونا بھی تھی۔ وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کسان ونگ لیہ کے ضلعی صدر ایڈووکیٹ اشفاق ملک کا کہنا ہے میں کاشتکار بھی ہوں، میں نے 50 ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل لگائی تھی کیونکے پچھلے برس گندم کی فصل پر اچھا ریٹ ملا تھا، سوچا اس دفعہ بھی زیادہ گندم لگائی جائے لیکن اس دفعہ گندم کو ٹکے ٹوکری کردیا گیا ہے، جس سے کسان دلبرداشتہ ہوگیا ہے۔ کسان اپنا رقبہ ٹھیکے پر دیتا ہے تو ایک ایکڑ کا ٹھیکہ لاکھ روپے سالانہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں
کسان ڈی اے پی کھاد 14 ہزار میں لیتا ہے، ایک بوری یوریا 10 ہزار میں خریدتا ہے، بیج گندم کا 7600 روپے کا فی ایکڑ حاصل کرتا ہے، زمین کی تیاری میں بھی 10 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں، اسی طرح ٹیوب ویل، کٹائی، سپرے پر 50 ہزار کے قریب خرچ آجاتا ہے اگر ٹوٹل کریں تو کسان کا ایک ایکڑ پر قریباً ایک لاکھ 90 ہزار روپے خرچ آتا ہے، فی ایکڑ اوسط پیدوار 45 من آتی ہے۔
گندم 39 سو کے بجائے 32 یا 33 سو میں فروخت ہو رہی ہے۔ کئی علاقوں میں 2800 سو روپے فی من فروخت کی گئی ہے، جس کی وجہ سے کسان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کسان کو فی ایکڑ 40 ہزار کا نقصان ہوا۔ مجھے بھی اس دفعہ 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سنگین صورتحال کے پیش نظر اگلی دفعہ گندم نہیں اگائیں گے، صرف اپنے کھانے کے لیے کاشت کریں گے۔ شاید حکومت اگلے سال بھی گندم خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
کسان اپنی گندم اسٹاک کیوں نہیں کرتا؟
ایڈووکیٹ اشفاق ملک کا کہنا تھا کہ کسان کے پاس اول تو اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ وہ گندم کو اسٹاک کرلے دوسرا کسان اکثر چیزیں ادھار پر لیتا ہے اور فصل اٹھانے پر رقم واپس کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے، اگر وہ گندم نہ بیچے تو بیوپاری اس کے درپے ہوتا ہے، اس لیے کوئی رسک نہیں لیتا۔
اگر ہم گزشتہ برس کی بات کریں جب بڑے کسان نے فصل اسٹاک کرنے کا سوچا تو اسسٹنٹ کمشنر کسانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گندم اپنی تحویل میں لے رہے تھے اور اس دفعہ کسان خود کہہ رہا ہے کہ آؤ اور گندم لے جاؤ لیکن حکومتی افسران اس دفعہ کوئی چھاپہ نہیں مار رہے۔
عام کسان کو باردانہ کیوں نہ ملا؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ضلع قصور کے کاشتکار محبوب عالم نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے باردانہ خریدنے کے لیے آن لائن سٹم متعارف کروایا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ جس کا 6 سے 12 ایکڑ رقبہ ہوگا اس کو حکومت باردانہ دے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایک تو آن لائن سسٹم سے ہمیں کوئی جواب ہی نہیں آیا کہ آپ باردانہ لے سکتے ہیں ہاں البتہ میرے نام سے بڑے بڑے کسانوں کو بار دانہ ضرور ملا ہےجو وزیر، مشیر، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں باردانہ انہیں ملا ہے۔ تاہم کاعذات کی حد تک ہمیں بھی ملا ہے۔ کسان کیا کرے فصل اگائے، محنت بھی کرے مگر فائدہ کوئی اور لے جائے یہ ہی ترجیجات اگر حکومت وقت کی رہیں تو پاکستان میں لوگ گندم کو ترسیں گے۔
کسان کارڈ سے چھوٹے زمیندار کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا
حکومت کسانوں کے لیے کسان کارڈ لا رہی ہے جس میں 30 سے 40 ہزار روپے کی رقم رکھی جائے گی۔ یہ کارڈ بھی 6 سے 12 ایکڑ کے کاشتکار کے لیے ہوگا تاکہ اسے فائدہ ہوسکے۔ شیخوپورہ کے کاشتکار محمد حینف کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ سے چھوٹے زمیندار کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ڈی اے پی اور یوریا کھاد پر کمپنی کا ریٹ اور ہے اور عام مارکیٹ میں یہ دگنی قمیت پر فروخت کی جاتی ہے۔
اسی طرح بجلی کی قمیت کافی زیادہ ہے جو کسان رقبوں کو نہر کا پانی نہیں لگاتا وہاں پر ٹیوب ویل کے ذریعے زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔ ٹیوب ویل بجلی اور ڈیزل پر چلتے ہیں ان کی قمیتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کسان کارڈ پر تو کاشتکار ایک ایکڑ فصل بھی سیراب نہیں کرسکتا۔
عام کسان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہاں البتہ اگر حکومت ڈی اے پی اور یوریا کی قمیت پر کنٹرول کرے تو اس کا فائدہ کسان کو ہوسکتا ہے دوسرا بجلی کی قمیتوں میں سبسڈی دیں، وگرنہ کسان کارڈ سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔