باجوڑ میں ہر سال ہزاروں طلبہ میٹرک کے بعد تعلیم کو خیرباد کیوں کہہ رہے ہیں؟

پیر 13 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قبائلی ضلع باجوڑ کی تحصیل نواگئی سے تعلق رکھنے والی طالبہ حرا (فرضی نام) نے میٹرک کے بعد اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا کیونکہ اُس کے علاقے میں یا اس کے قریب کوئی ہائیر سیکنڈری اسکول یا گرلز کالج نہیں تھا۔

حرا نے وی نیوز کو بتایا کہ باجوڑ میں محض ایک گرلز ڈگری کالج ہے جو ہم سے کافی دور ہے اور ہمارے گھر سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی کافی فاصلے پر ہے۔ میری خواہش تھی کہ تعلیم حاصل کرکے خود مختار بن سکوں لیکن ہائیر سیکنڈری اسکول اور کالج قریب نہ ہونے کی وجہ سے میری تعلیم ادھوری رہ گئی ہے۔

مزید پڑھیں

حرا کے مطابق اُن جیسی کئی لڑکیاں ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن باجوڑ میں ہائیر سیکنڈری اسکولز کی کمی اور کالجز کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خواب بھی ادھورے رہ گئے ہیں۔

حرا نے بتایا کہ باجوڑ میں لڑکیوں کے لیے صرف 186 پرائمری، 42 مڈل اسکولز، 13 ہائی اسکولز اور ایک ہائیر سیکنڈری اسکول ہے۔ جبکہ پورے باجوڑ میں فقط ایک گرلز ڈگری کالج ہے جس کا آغاز ایک اسپتال کی عمارت سے ہوا تھا اور اس میں طالبات کی تعداد پہلے کی طرح آج بھی کم ہے۔ ’وقت بدل چکا ہے والدین اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن ان بچیوں کو اتنا دور بھیجنا کافی مہنگا پڑتا ہے‘۔

’ضلع باجوڑ میں ہر سال تقریباً 3 ہزار سے زیادہ طلبا و طالبات میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ضلع میں کالجز اور ہائیرسیکنڈری اسکولز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، خصوصاً لڑکیوں کے لیے بالکل نہ ہونے کے برابر ہے‘۔

ضم اضلاع میں تعلیم کی صورتحال انتہائی خراب

خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کے حوالے سے مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 79 فیصد لڑکیاں اور 69 فیصد لڑکے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ باجوڑ کی آبادی 12 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جس میں نصف آبادی خواتین کی ہے جن کے لیے تعلیمی ادارے بہت کم یا بلکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسکولوں کی خستہ حال عمارتوں میں بجلی، پینے کا صاف پانی اور واش رومز کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت محکمہ تعلیم باجوڑ کے دفتر سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ کے سرکاری اسکولوں میں جماعت دہم میں داخل طلبا و طالبات کی تعداد 2887 ہے جبکہ گیارہویں جماعت میں داخل ہو نے والے طلبا و طالبات کی تعداد 2802 ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ 85 طلبا و طالبات داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اسی طرح پرائیویٹ اسکولوں سے میٹرک کے بعد فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد 3 ہزار سے زیادہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ تقریباً 3 ہزار سے زیادہ طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

فرسٹ ایئر کی 270 سیٹوں پر 1880 طلبہ نے داخلے کے لیے اپلائی کیا

باجوڑ کے علاقے خار میں قائم گورنمنٹ ڈگری کالج میں فرسٹ ایئر کے داخلوں میں 270 طلبہ کو داخلہ دینا تھا جبکہ 270 داخلوں کے لیے 1880 درخواستیں موصول ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں 1610 طلبہ کو داخلہ نہیں ملا۔ یہ صورتحال طلبہ کے مزید 2 کالجز اور ایک گرلز ڈگری کالج میں بھی رہی۔ جس کی وجہ سے اکثر طلبا داخلہ نہ ملنے پر پشاور اور دیگر اضلاع چلے جانے ہیں۔ جبکہ ایسی صورت میں غریب طلبہ اور باالخصوص لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم باجوڑ کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے کئی بار دعوے کیے گئے ہیں کہ ہائیر سیکنڈری اسکولوں کو نان ڈویلپمنٹ بیسز پر فعال کیا جائے گا تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو فرسٹ ایئر میں داخلہ مل سکے لیکن حقیقت میں ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کوئی بھی ہائیر سیکنڈری اسکول فعال نہیں کیا گیا بلکہ یہ سب جھوٹے وعدے اور دعوے تھے۔

ضلع باجوڑ میں ہر سال 49 سرکاری ہائی اسکولوں اور 58 پرائیویٹ ہائی اسکولوں سے ہزاروں طلبہ میٹرک پاس کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کی تعلیم کے لیے صرف 4 ڈگری کالجز اور 3 ہائیر سیکنڈری اسکولز ہیں جو کہ کافی نہیں۔

باجوڑ میں لڑکیوں کے گرلز ہائی اسکولوں میں سائنس ٹیچرز کی تعداد کم

محکمہ تعلیم کے مطابق ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کے گرلز ہائی اسکولوں میں سائنس ٹیچرز کی تعداد بھی کم ہے۔ ضلع بھر میں اس وقت 45 خواتین سائنس ٹیچرز کی اشد ضرورت ہے۔

اس حوالے سے جب باجوڑ کے واحد گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی لیکچرر شازیہ سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن ابھی اس میں کافی وقت لگے گا۔

باجوڑ میں اب لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملنے لگی

شازیہ نے بتایا کہ باجوڑ میں آہستہ آہستہ لوگوں میں شعور پیدا ہورہا ہے اور وہ اپنی بچیوں کو تعلیم دینے کی اجازت بھی دے رہے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سہولیات بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیم پر خاص توجہ دے کیونکہ پہلے سے ہی ہمارے نوجوان دہشتگردی، غربت اور بے روزگاری کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اگر تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور لڑکیوں کو صحیح معنوں میں تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تو وہ بھی اپنے خاندان، علاقے اور ملک کی ترقی میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جتنا کہ دیگر صوبوں کی لڑکیاں کررہی ہے۔ تعلیم کے ذریعے ہی ان لڑکیوں کو اپنا مستقبل سنوارنے کا موقع مل سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp