جموں کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متحرک رہنما شوکت نواز میر یکم جنوری 1976 میں مظفرآباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بی کام کیا ہے۔ وہ 8ویں جماعت سے ہی والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور اس کے علاوہ وہ سماجی کام بھی کرتے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
ان کے والد چوہدری غلام عباس، حیدر علی خان اور سابق وزیر اعظم مجاہد سردار عبدالقیوم خان کے دست راست رہے ہیں اور مرتے دم تک مسلم کانفرنس کے ساتھ رہے ۔
یہ خاندان ہمیشہ ہی الحاق پاکستان کی نظریے پر نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ اس کا پرچار بھی کرتا رہا ہے۔
شوکت نواز میر نے پہلی بار 2003 میں مظفرآباد میں تاجروں کی تنظیم کا انتخاب 2 بار لڑا اور جیتے۔ اس کے بعد مظفرآباد شہر میں تاجروں کے تمام تنظیمیں اکٹھی ہوئیں اور ان کو چیئرمین منتخب کیا۔
سنہ2013 میں آزاد کشمیر میں تاجروں کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ سنہ 2015 تاجروں کے انتخابات کی کوشش کی مگر مخالف گروپ نے کورٹ سے حکم امتناہی حاصل کیا۔ سنہ 2020 میں انتخاب اس لیے نہیں ہوسکے تھے کہ یہ خطہ کورونا وائرس کی لپیٹ میں تھا۔
نومبر 2022 میں شہر مظفرآباد میں مرکزی انجمن تاجران کے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 4 ہزار 800 ووٹ حاصل کیے ان کے مخالف نے 2100 ووٹ لیے تھے۔ انہوں نے آزاد کشمیر بھر کے تاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے صبر آزما جدوجہد کی اور بلاآخر آزاد کشمیر بھر کے تمام تاجروں کی نمائندہ تنظیم آل آزاد کشمیر انجمن تاجران قائم کرنے مین کامیاب ہوگئے۔ وہ اس اتحاد کے سیکریٹری جنرل نامزد ہوئے۔
شوکت نواز میر دریا بچاؤ مہم کے بھی حصہ رہے اور سول سوسائٹی کے ہمراہ 84 دن مظفرآباد میں دھرنا دیا۔ 16 اگست 2023 عوامی حقوق کے لیے تحریک کے لیے جموں کشمیر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اور شوکت نواز میر ان 32 اراکین میں سے ایک ہیں جو اس کمیٹی کی رہنمائی کررہے ہیں۔
اس اتجاد نے آٹے پر مزید سبسڈی ، بجلی کے نرخ میں کمی اور اشرافیہ کی مراعات کی کمی کے لیے ایک سال تحریک چلائی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
وہ اور ان کے ساتھیوں نے عوامی حمایت کے ساتھ یہ جدوجہد عدالت کے اندر اور عدالت کے باہر لڑی اور آخر کار کامیابی حاصل کی۔ یہ اس خطے کی تاریخ کی سب سی بڑی تحریک تھی کیوں کہ اس تحریک میں اس خطے کا بچہ بچہ شامل رہا لیکن تشدد کے کچھ واقعات کے سوا مجموعی طور پر یہ تحریک پر امن رہی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین نے تدبر کا مظاہرہ کیا اور اس تحریک کو پر امن رکھا۔ ساتھ ہی سیکیورٹی فورسز نے بھی بے جا طاقت کا استعمال گریز کیا۔
اس ایکشن کمیٹی میں تمام طبقہ فکر، جماعتوں اور نظریات کے لوگ شامل ہیں کیوںکہ جن نکات پر لوگ اکٹھے ہوئے وہ کسی ایک طبقے کا نہیں تھا بلکہ سب کا مسئلہ تھا۔