محترم عمران خان صاحب! امید کرتا ہوں کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے، مئی کی گرمی میں اڈیالہ جیل میں شاید ایک کٹھن اور مشکل مرحلے سے گزر رہے ہوں گے۔ کل میرا بنی گالہ سے گزر ہوا تو آپ کی یاد نے بہت ستایا۔ کبھی بانی گالہ میں آپ کا گھر میڈیا کی ڈی ایس این جی وینز، کارکنان اور پارٹی ممبران کی گاڑیوں کی لمبی قطاروں سے بھرا ہوتا تھا، مگر اب یہاں خاموشی کا بسیرا ہے۔
خان صاحب! دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا ایک ہنستا کھیلتا اور جنون سے بھرپور سیاسی سفر مشکلات کا شکار ہو گیا۔ گزشتہ ایک سال سے آپ ان کٹھن راستوں سے گزر رہے ہیں۔ نہ صرف آپ بلکہ آپ کی باپردہ اہلیہ بھی ان مشکلات سے دو چار ہیں جن کا شاید انہوں سے شادی سے پہلے یا بعد میں بھی کبھی سوچا نہ ہوگا۔
گزارش کرنی تھی آپ سے کہ ان رونقوں کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کچھ سوچا آپ نے؟ نہیں نہیں، مجھے غلط مت سمجھیں۔ میں آپ کو جھکنے کا نہیں کہہ رہا۔ جھکنا تو مرد کی شان کی خلاف ہے لیکن آخر کوئی نہ کوئی حل تو نکالنا ہو گا ناں!
چلیں حل چھوڑیں خان صاحب! یہ تو آپ نے سوچا ہی ہوگا کہ آج آپ جس جگہ پر ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کس نے آپ کو اڈیالہ جیل تک پہنچا دیا؟ کس نے آپ کو پارٹی کے اجلاسوں میں کہا تھا کہ ‘تن’ دے عوام آپ کے ساتھ ہے؟ کس نے آپ کو کہا تھا کہ کے پی اور پنجاب اسمبلیاں توڑ دیں جبکہ پرویز الہی مخالفت کرتے رہے ؟ شہزاد اکبر جیسے کردار کہیں آپ کو گمراہ تو نہیں کرتے رہے؟ شہباز گل کہاں سے آیا تھا؟ کس نے رانا ثنا اللہ پر ہیروین ڈالنے کا کہا تھا؟ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل پر مقدمے بنانے کا مشورہ دینے والا کون تھا؟
کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ جس روز آپ کی گرفتاری ہوئی اور اس کے بعد 9 مئی کا واقعہ ہوا، آپ یا آپ کی دوسرے درجے کی قیادت اپنے کارکنان کو روکتی کہ احتجاج نہ کریں، گھروں میں رہیں، ہم آج سے قانون کا سامنا کریں گے، جن املاک کو نقصان پینچایا جا رہا ہے، جن اداروں کو برباد کیا جا رہا ہے، وہ ہمارے ہیں، ان کا قصور نہیں ہے، ہم سیاسی طور پر مقابلہ کریں گے۔
ایسا کیا تھا کہ آپ اپنے سیاسی مخالفین سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے اور آج بھی نظر نہیں آتے۔ آج کل آپ کے پاس تنہائی میں یہ سب باتیں سوچنے کا کافی وقت موجود ہے، آپ کو ان پر غور کرنا چاہیے کہ آپ کہاں غلط تھے، کہاں غلط فیصلے ہوئے، کس نے آپ کو مجبور کیا؟
پارلیمان کے سامنے سے گزرا تو پھر سوچا کہ لیڈر تو اڈیالہ جیل میں قید ہے۔ بہت سے ایسے لوگ آج پارلیمان کا حصہ ہیں، ان پر بھی مقدمات کی طویل فہرست تھی، وہ کیسے باہر آ گئے؟کیسے انتخابات جیت گئے؟ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ روپوش لوگ سیدھا پارلیمان کی راہ داریوں سے نکلے جبکہ انہوں نے تو کوئی پریس کانفرنس بھی نہیں کی تھی؟
سیاسی مخالفتوں میں لوگ اتنا گر گئے ہیں کہ عدت جیسا گھٹیا کیس آپ کی اہلیہ کے خلاف بنا دیا جو انتہائی قابل احترام ہیں۔ ہمارے ملک کا ماضی زیادہ اچھا نہیں ہے اس لیے خواتین کے حوالے سے کسی اچھے اقدام کی توقع سیاسی مخالفت میں کبھی نہیں رکھنی چاہیے۔
دیکھیں خان صاحب، جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ آپ کے پاس عوامی طاقت ہے اور بھرپور ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں گلی کوچوں میں آپ کا ووٹر اور ووٹ بینک موجود ہے آپ کو شاید پھر اقتدار مل سکتا ہے مگر آپ کو اس کے لئے قدم بڑھانا ہو گا۔ ضد اور انا کو اڈیالہ میں ہی ذبح کر کہ اپنے سیاسی مخالفین کو گلے لگانا ہو گا۔ اپنی غلطیوں اور غلط فیصلوں پر اظہارِ ندامت کرنا ہو گا۔ انسان اپنوں سے ہی بات کرتا ہے، غیروں سے نہیں، اس ملک کا ہر ہر باسی آپ کا اپنا ہے۔ سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر دشمن تو نہیں ہیں، نہ شہباز شریف، آصف زرداری، اور دیگر لوگ بھی آپ کے اپنے ہیں۔
کل آپ کے سخت ترین حریف مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی اگر آپ کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں تو باقی کیوں نہیں؟ بلکہ ایک قدم اور بڑھیں، اسٹیبلشمنٹ کو پیغام بھیجیں کہ آپ ہمارا فخر ہیں، عزت ہیں، 9 مئی میں جو لوگ بھی ملوث تھے، انہیں سزا ملنے دیں اور اس ملک کی خاطر قوم کی خاطر آگے بڑھ جائیں۔ ورنہ یہ ملک بہت پیچھے چلا جائے گا۔ سیاسی نفرتیں بہت آگے جا چکی خان صاحب، پاکستان اس کا اور متحمل نہیں ہو سکتا۔ مل کر آگے بڑھ جائیں، بنا کسی شرط کے آگے بڑھیں، بات چیت کا آغاز کریں۔
اتنی دیر نہ کریں عمران خان صاحب کہ آپ کی اپنی جماعت میں موجود کالی بھیڑیں ہی آپ کو باہر نہ آنے دیں اور آپ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھائیں۔ رہی بات معافی مانگنے کی تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر جھک جانے سے تمھاری عزت میں کمی آ جائے تو روزِ محشر مجھ سے لے لینا۔
بس اتنا ہی کہنا تھا۔ امید ہے آپ میری باتوں پر غور فرمائیں گے۔