عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی، کیا یہ محض اختیارات کی جنگ ہے؟

ہفتہ 18 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

25  مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط اور گزشتہ دنوں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی عدلیہ کے خلاف پریس کانفرنسوں سے بظاہر ایک تاثر ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شاید کوئی محاذ آرائی چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت بھی طلب کی ہے۔

سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جہاں ماضی میں فوج کی جانب سے آئین کے خلاف ورزیوں اور مارشل لاز کے نفاذ کے بہت بڑے نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ، ماضی قریب میں بنائی گئی جے آئی ٹیز اور نگران ججوں کے کردار کے بارے میں بھی سخت تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ وہیں کچھ حلقے پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی نشان نہ دیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حلقے اس بات سے بھی شاکی نظر آتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس سال فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی اور عدلیہ نے اس سلسلے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس مقدمے کی سماعت کے دوران عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر کھل کر بات کی گئی۔ تمام ہائی کورٹس نے اس سلسلے میں اپنا مؤقف بیان کیا اور عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو ایک سچائی قرار دیا۔

 لیکن اس سارے تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر یہ کوئی محاذآرائی کی کیفیت بھی ہے تو اس میں عوام کا کوئی فائدہ ہے یا یہ محض مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی ہے؟

ماضی میں اگر دیکھا جائے تو سنہ 2007 میں ججز بحالی کے لیے شروع ہونے والی وکلا تحریک کے وقت ہمیں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک تصادم نظر آیا۔

دسمبر 2019 میں جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے میں قائم کی گئی خصوصی عدالت نے سزا سنائی تو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے سے فوج کے رینکس اینڈ فائلز میں بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

مارچ 1981 میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے پی سی کے تحت حلف نہ اٹھانے پر 19 ججوں کو برطرف کر دیا تھا جن میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، جسٹس دراب پٹیل شامل تھے۔

فروری 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 ججز جن میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس جی صفدر اور جسٹس محمد حلیم شامل تھے انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باوجود اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ مسترد کر دیا تھا اور 45 سال بعد سپریم کورٹ نے ان کے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔

اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد سپریم کورٹ کے 6 ججز نے پی سی او تحت حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے استعفے دے دیے تھے جن میں جسٹس سعیدالزماں صدیقی، جسٹس مامون اے قاضی، جسٹس ناصر اسلم زاہد اور جسٹس کے آر خان کے علاوہ دیگر ججز شامل تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے 14 ججز نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے۔

طاقتور طبقات کے درمیان چھوٹی موٹی لڑائیاں چلتی رہتی ہیں جن کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، فرخ سہیل گوئندی

پاکستان کے نامور محقق اور ادیب فرخ سہیل گوئندی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بنیادی تعریف کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو صرف اور صرف ملٹری تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ میں اعلٰی عدلیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی اور طاقتور طبقات شامل ہوتے ہیں۔

ان طبقات کے اندر اختیارات کی چھوٹی موٹی لڑائیاں چلتی رہتی ہیں جن کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زمانے میں جب ججز بحالی کی تحریک چلی تو میں کہتا تھا کہ یہ جج جلسے جلوسوں سے بحال نہیں ہوں گے، اوپر سے ایک فون آئے گا اور یہ بحال ہو جائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

فرخ سہیل گوئندی نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کا عوامی حقوق کے مسئلے پر کبھی بھی کوئی تصادم نہیں ہوا۔ ان کی لڑائیاں ہمیشہ اپنے اختیارات کے لئے ہوتی ہیں اور ان کا تصادم ایک حد سے آگے کبھی نہیں جاتا، اس وقت چونکہ ریاستی ڈھانچہ بہت کمزور ہو چکا ہے اس لیے ہمیں اس تصادم کی شدت زیادہ نظر آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ریاستی اداروں کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں، مثال کے طور پر امریکا میں  پینٹاگان اور سی آئی اے کے درمیان اختلاف ہوتا ہے لیکن وہ اختلاف اصولی ہوتا ہے، یہاں آج تک آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی جج نے کسی جرنیل کو نکالا ہو۔

ہاں اسٹیبلشمنٹ ذوالفقار علی بھٹو، بینیظیر بھٹو، نواز شریف اور اب عمران خان کے خلاف نظر آتی ہے، اعلیٰ عدلیہ جو کہ اسٹیبلشمنٹ ہی کا حصہ ہے ان کے اور ملٹری کے درمیان صرف اختیارات کی کشمکش ہوتی ہے۔

پاکستان میں کوئی تحریک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوتی، احمد بلال محبوب

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ تو ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں پر ماضی میں دباؤ رہا ہے، جن کو دھمکیاں دی گئیں، جن کے گھروں میں کیمرے لگائے گئے، وہ ناراض تو بہت ہیں اور اب جب یہ معاملہ کھل ہی گیا ہے تو وہ کھڑے ہو رہے ہیں آواز بلند کر رہے ہیں لیکن اس سب میں توازن کہیں چھوٹ رہا ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں اسٹیبلشمنٹ جس حد تک جا سکتی تھی، اس حد تک گئی۔ اس نے ججوں کو معطل کر دیا اور اس کے بعد وکلا تحریک شروع ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ وکلا تحریک صرف اس وجہ سے کامیاب ہو گئی کیونکہ اس وقت آئی ایس آئی اس تحریک کو سپورٹ کر رہی تھی اور وہ جنرل مشرف کی رخصتی چاہتی تھی۔

احمد بلال محبوب نے بتایا کہ سنہ 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے یا نظام مصطفیٰ کی تحریک صرف اس وجہ سے کامیاب ہوئی کیونکہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک بحالی جمہوریت اس وجہ سے ناکام ہوئی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف تھی۔

موجودہ صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس وقت صورتحال اس وجہ سے مختلف ہے کہ پہلے ججوں کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا لیکن اب یہ مشکل نظر آتا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ عوام کے اندر اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات پوری شدت سے موجود ہیں، اسٹیبلشمنٹ پر دہشت گردوں کا دباؤ بھی ہے، سیاسی جماعتیں بھی ان کے خلاف ہیں، تو اس تناظر میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بہت کڑا امتحان ہے۔

اداروں کے درمیان تصادم کا نقصان حکومت کو ہو رہا ہے، عبدالقیوم صدیقی

 سپریم کورٹ آف پاکستان کی طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی عبدالقیوم صدیقی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کی کیفیت تو ہے، پاکستان تحریک انصاف نے ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جس سے دونوں ادارے آمنے سامنے آ چکے ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان حکومت وقت کو ہو رہا ہے۔

عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ ججز کہہ رہے ہیں کہ فوج تو ہمارے ملک کی سرحدوں کی محافظ ہے لیکن وزیراعظم کے ماتحت خفیہ ایجنسیاں عدلیہ میں مداخلت کرتی ہیں۔ اس ساری بحث میں سیاسی حکومت یا ایگزیکٹو ہی تختہ مشق ہے۔

کیا اس قضیے کا کوئی عوامی پہلو بھی ہے یا یہ محض اداروں کے درمیان ایک لڑائی ہے، اس سوال کے جواب میں عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جب سیاسی حکومت پر روز الزامات لگائے جائیں گے تو اس سے عوامی پہلو تو بن ہی جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp