مکھنی چکن کڑاہی کس کی ایجاد، معاملہ عدالت پہنچ گیا

پیر 20 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت میں مشہور ڈش ’مکھنی چکن کڑاہی‘ کی ایجاد کے معاملے پر جاری قانونی جنگ مزید تیز ہوگئی ہے اور اب اس کیس میں تصاویر اور ویڈیو کے نئے ثبوت عدالت میں پیش کر دیے گئے ہیں۔

بھارت کے 2 ریستوران چین ’موتی محل‘ اور ’دریا گنج‘ کے درمیان دہلی ہائیکورٹ میں جنوری 2024 سے ایک دلچسپ مقدمہ چل رہا ہے جس میں دونوں ہوٹلز کا دعویٰ ہے کہ معروف ڈش ’مکھنی چکن کڑاہی‘ کو ایجاد کرنے کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔

’مکھنی چکن کڑاہی‘ کا معاملہ جب عدالت پہنچا تو اس نے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مختلف ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کی بھی توجہ حاصل کی۔ موتی محل ریستوران چین کی جانب سے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’مکھنی چکن کڑاہی‘ کی ڈش انہوں نے ایجاد کی اور انہیں اس کے موجد کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

ادھر ’موتی محل‘ کا مطالبہ ہے کہ اس کے حریف ’دریا گنج‘ ریستوران کو اس دعوے سے روکا جائے کہ ’مکھنی چکن کڑاہی‘ ان کی ایجاد ہے۔ جبکہ ’موتی محل‘ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اسے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے 2 لاکھ 40 ہزار ڈالرز بطور ہرجانہ ادا کیے جائیں۔

’موتی محل‘ کا کہنا ہے کہ اس کے بانی کندن لال گجرال نے دہلی منتقل ہونے سے قبل 1930 کی دہائی میں اس ڈش کو پشاور میں بنایا تھا۔ لیکن دریا گنج نے 642 صفحات پر مشتمل اپنے جواب میں کہا ہے کہ ’مکھنی چکن کڑاہی‘ کی ایجاد کی کہانی سچ نہیں ہے۔ اس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا ہے۔

’دریا گنج‘ کا کہنا ہے کہ اس کے بانی خاندان کے ایک آنجہانی رکن کندن لال جگی نے یہ ڈش اس وقت بنائی جب وہ دہلی میں ایک دوسری جگہ منتقل ہوئے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پشاور سے آنے والے جگی کے دوست گجرال صرف مارکیٹنگ کو دیکھتے تھے۔ واضح رہے کہ گجرال کا انتقال 1997 جب کہ جگی کا انتقال 2018 میں ہو گیا تھا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق دریا گنج کی جانب سے نان پبلک فائلنگ میں جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں ان میں 1930 کی دہائی کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے جس میں دو دوستوں کو پشاور میں دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح 1949 کا ایک شراکت داری معاہدہ پیش کیا گیا ہے جب کہ جگی کا دہلی منتقل ہونے کے بعد کا بزنس کارڈ اور 2017 کی ایک ویڈیو ہے جس میں وہ ڈش کی ایجاد کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

’دریا گنج‘ کا اپنی فائلنگ میں کہنا تھا کہ دوستوں کی شراکت داری کی وجہ سے دونوں فریق یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے پکوان بنائے۔ انہوں نے اس تنازع کو کاروباری دشمنی قرار دیا ہے۔ ’موتی محل‘ نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔ اب اس کیس کی اگلی سماعت 29 مئی کو ہوگی۔

اس قانونی جنگ میں عدالت کے سامنے جو نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ ’مکھنی چکن کڑاہی‘ پہلی مرتبہ کہاں، کب اور کس نے بنائی؟ آیا اسے پشاور میں گجرال نے بنایا یا نئی دہلی میں جگی نے، یا پھر ان دونوں کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے۔

واضح رہے کہ ’موتی محل‘ چین فرنچائز ماڈل پر کام کرتی ہے اور اس کے دنیا بھر میں 100 سے زیادہ آؤٹ لیٹس ہیں۔ اس کی ’مکھنی چکن کڑاہی‘ کی ڈشز کی نئی دہلی میں کم از کم قیمت 8 ڈالر ہے جب کہ نیو یارک میں یہ 23 ڈالر میں دستیاب ہے۔ اس کے برعکس ’دریا گنج‘ کا آغاز 2019 میں ہوا تھا اور اس کی ’مکھنی چکن کڑاہی‘ قیمت ساڑھے 7 ڈالر ہے۔ اس کے 10 آؤٹ لیٹس ہیں جن میں سے زیادہ تر نئی دہلی میں ہیں۔ ’موتی محل‘ نے اپنے مقدمے میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ دریا گنج نے اپنے آؤٹ لیٹس میں موتی محل کی نقل کی ہے۔

’دریا گنج‘ نے ریستوران کے اندرونی حصوں کی تصاویر کے ساتھ جواب جمع کرایا ہے جس کا جائزہ عدالت لے گی۔ ’دریا گنج‘ کا دعویٰ ہے کہ موتی محل نے اس کے فرش کے ٹائلوں کا ڈیزائل نقل کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp