ایرانی صدر کی شہادت ایک سانحہ

منگل 21 مئی 2024
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت پر ایرانی عوام غمزدہ ہیں۔ ایران کے علاوہ پوری دنیا، بالخصوص اسلامی ممالک میں بھی لوگ اس افسوسناک سانحے کی وجہ سے افسردہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حادثے کے حوالے سے مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ اس شبے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ واقعے کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی زیرِ بحث ہے کہ ابراہیم رئیسی آنے والے دنوں میں ایران کے سپریم لیڈر کے لیے موجودہ رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے بیٹے، سید مجتبیٰ خامنه‌ ای کے ساتھ ایک مضبوط امیدوار تھے۔ ایران میں سب سے زیادہ با اختیار شخصیت سپریم لیڈر ہوتا ہے اور اس واقعے کے حوالے سے ایرانی سسٹم پر بھی سوالات اٹھ رہےہیں۔ بہرحال یہ تو وہ سمت ہے جس پر ابھی باتیں ہو رہی ہیں اور ہوں گی بھی، لیکن یہ سچ ہے کہ یہ سانحہ خطے کے حالات کے تناظر میں بھی غیر معمولی ہے۔

2005 میں احمدی نژاد کے صدر بننے کے بعد ایران کی سفارتی پالیسی میں بے انتہا سختی آئی۔ احمدی نژاد نے پہلی مرتبہ کھلے عام کہا کہ اسرائیل پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے اور اس کا وجود مٹا دینا چاہیے۔ احمدی نژاد کے دورِ صدارت میں ایران کی سفارتی پالیسی میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی مگر 2013 میں حسن روحانی کے صدر بننے کے بعد ایران کی پالیسی میں نمایاں نرمی سامنے آئی۔ 2015 میں حسن روحانی کے دورِ صدارت میں دنیا کی 5 بڑی طاقتوں، امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس اور جرمنی کے ساتھ جوہری سمجھوتا ہوا جس میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایران نے عالمی قوتوں کی قریباً تمام شرائط مان لی تھیں۔ حسن روحانی ایک روشن خیال سیاستدان سمجھے جاتے تھے اور ان کوششوں کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ایران سے پابندیاں ہٹا لی جائیں گی یا نرم کردی جائیں گی۔ لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں، بالخصوص یورپ نے ایران کو بہانوں سے پابندیوں کا نشانہ بنائے رکھا۔

ابراہیم رئیسی ایک سخت گیر رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے اور اگست 2021 میں صدر بننے کے بعد اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ایران-اسرائیل جنگ کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ 2005 کے بعد سے اگر ایرانی سسٹم پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات محسوس کی جا سکتی ہے کہ سسٹم نے پہلے احمدی نژاد کو موقع دیا اور ایک سخت پالیسی کے نتائج جانچنے کی کوشش کی گئی اور مثبت نتائج سامنے نہ آنے کے بعد 2013 میں حسن روحانی کے ذریعے عالمی قوتوں کے تمام مطالبات تسلیم کیے گئے مگر عالمی دنیا سے وہ رسپانس نہ ملا جس کی ایرانی پالیسی سازوں کو امید تھی۔ یعنی ایران سمجھ گیا کہ ہم جو بھی کریں، جتنے بھی مطالبات مان لیں، عالمی طاقتوں، بالخصوص یورپین ممالک نے اسی طرح دبا کر رکھنا ہے۔ اس کے بعد ایک بار پھر سخت گیر ایرانی پالیسی سامنے آئی۔

ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی میں سختی ضرور آئی لیکن سابقہ صدور کے مقابلے میں ان کا دور یورپین ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی کوششوں کے حوالے سے ضرور یاد رکھا جائے گا۔ دیکھا جائے تو ایرانی حکمرانوں نے ہمیشہ ایران کے مخصوص تاریخی وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے۔ مثلاً ایران میں قومی تفاخر خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ پایا جاتا ہے اور ایرانی سیاسی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ایران کا حکمران طبقہ بھی اسی کلچر کا شکار رہا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے ایران نے کافی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ البتہ ابراہیم رئیسی اس حوالے سے بالکل مختلف ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ان حالات میں پاکستان کا دورہ کیا کہ کچھ ہی عرصہ قبل مہمان ملک میں ایران نے کاروائی کی تھی جس کا اسے بھرپور جواب ملا تھا۔  اگر سادہ انداز میں دیکھا جائے تو یہی کہیں گے کہ ٹھیک ہے ایران نے کاروائی کی اور پاکستان نے جواباً کاروائی کی مگر بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ایک چھوٹا سی مثال دوں گا کہ جس وقت پاکستان نے جوابی کارروائی کی، اس وقت دُنیا کی طاقتور رائے عامہ نے ایران کو بہت چھوٹا بنا کر رکھ دیا۔ یقیناً دنیا پاک ایران کشیدگی کی متمنی تھی لیکن ابراہیم رئیسی نے ایرانی کلچر کے بالکل متضاد پاکستان کے دورے کا غیر معمولی فیصلہ کیا جو کہ ان کی دانائی کا بہت بڑا ثبوت ہے۔

ابراہیم رئیسی کے دور میں ایران کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات کافی مظبوط ہوئے اور احمدی نژاد کے خالی خولی دعوؤں کے برعکس انہوں نے عالمی طاقتوں کو ٹف ٹائم دیا۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات شدید خراب تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ تعلقات تھے ہی نہیں تو زیادہ غلط نہ ہوگا۔ مگر ابراہیم رئیسی کے دور میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ساری تلخیاں بھلا کر آگے بڑھنے پر اتفاق ہوا۔ سعودی-ایران تعلقات کی بحالی میں چین کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر ابراہیم رئیسی اور محمد بن سلمان وہ بنیادی کردار ثابت ہوئے جنہوں نے تاریخی نفرتوں کی اس دیوار کو گرا دیا۔

ابراہیم رئیسی کی شہادت کی وجہ سے ایران کو جو نقصان ہوا، سو ہوا مگر عرب ممالک بھی اس سانحے کے منفی اثرات کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ بظاہر تو ابراہیم رئیسی سخت گیر مذہبی رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے مگر ان کی پالیسیاں ماڈریٹ تھیں اور اگر ان جیسا دانش مند شخص ایران کا سپریم لیڈر منتخب ہو جاتا تو آنے والے سالوں میں ایران کی تقدیر بدل جاتی۔ ابراہیم رئیسی کی شہادت یقیناً بہت بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات پوری مسلم امہ پر پڑیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp