کیا آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے؟

پیر 27 مئی 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ابھی کچھ دن پہلے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی طرف سے فیصلہ دیا گیا کہ اسرائیل کو فلسطین کے اندر ملٹری آپریشن فی الفور بند کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ احکامات بھی جاری کیے گئے کہ فلسطین کے بارڈرز کو فوری طور پر کھولا جائے تاکہ امدادی کارروائیاں شروع کرتے ہوئے سامان وہاں پہنچایا جائے۔ بین الاقوامی عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو وہاں جانے کی اجازت دی جائے تاکہ جنگی جرائم کے شواہد کو نہ مٹایا جاسکے۔ آئی سی جے نے اس سال تیسری مرتبہ احکامات جاری کیے ہیں جنہیں ہر مرتبہ اسرائیل نے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فوجی آپریشن جاری رکھا۔

صرف آئی سی جے ہی نہیں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی طرف سے بھی متوقع طور پر اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے علاوہ حماس کے 3 لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آئی سی سی میں ان کے خلاف باقاعدہ درخواست جمع کرائی جاچکی ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ آئی سی سی کے کسی ایسے اقدام کو نہیں مانتے جو اسرائیل کے سیلف ڈیفنس کے بنیادی حق پر اثر انداز ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں اسرائیل پر دنیا بھر سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ فرانس جیسا اسرائیل کا اتحادی ملک دوری اختیار کررہا ہے۔ آہستہ آہستہ جرمنی نے بھی بیانات دینا شروع کردیے ہیں جبکہ امریکا اور یورپ میں عوام کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ بھی مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا کی طرف سے جو احتجاجی مہم شروع کی گئی ہے اس نے امریکی انتظامیہ کو دباؤ میں ضرور ڈالا ہے۔

سوال یہ ہے کیا آئی سی جے، آئی سی سی، یورپی ممالک اور امریکی و یورپی عوام کے احتجاج سے اسرائیل اور امریکا دباؤ میں آ سکتے ہیں کہ وہ کسی 2 ریاستی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ سے سکیں؟ اس کا جواب ہے بالکل بھی نہیں۔ ایک علیحدہ فلسطینی ریاست تو بہت دور کی بات ہے فی الحال تو فلسطین میں جنگ بندی کرانا مشکل ہوگیا ہے۔ ان تمام تر فیصلوں اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اسرائیلی فورسز کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں لگاتار فوجی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ اس لیے دنیا کے لیے سب سے اہم مسئلہ اس وقت جنگ بندی بنا ہوا ہے۔

اس وقت فلسطین میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں صرف 2 ممالک ہی روک سکتے ہیں اور وہ ہیں امریکا اور اسرائیل۔ امریکا میں اس سال الیکشن ہیں اور الیکشن کے سال نہ امریکی انتظامیہ اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی اسرائیل پر ایسا کوئی دباؤ ڈال سکتی ہے کہ جس سے یہودی لابی ناراض ہوجائے۔ یعنی انتخابات کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے ہاتھ تو فی الحال بندھے ہوئے ہیں کہ وہ اسرائیل پر کوئی دباؤ بڑھا سکے۔

دوسرا اہم ملک جو فلسطین میں فوجی کارروائیاں ختم کرکے جنگ بندی کرا سکتا ہے وہ ہے خود اسرائیل۔ اسرائیلی حکومت تو کبھی نہیں چاہے گی کہ جنگ بندی ہو بلکہ وہ تو پوری فلسطینی قوم کو حماس کا ساتھی گردان کر ان کو صفحہ ہستی سے ہی مٹانا چاہتی ہے۔ وہ بھلا کیوں جنگ روکے گی جب ان کو ایک موقع ملا ہوا ہے۔ اسرائیلی عوام بھی زیادہ تر حماس کے ان حملوں کے خلاف ہیں اور زیادہ تر اسرائیلی فلسطینیوں کو حماس کے نام پر اکتوبر 2023 کے حملے کے جواب میں بھرپور جواب دینے کے حمایتی ہیں۔

نیتن یاہو پر اگر کوئی دباؤ ہے تو وہ صرف اتنا کہ ابھی تک وہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرو اسکے ہیں۔ نیتن یاہو کے لیے سب سے اہم سوال ہی یہی ہے کہ وہ اپنی عوام کو ان یرغمالیوں کی رہائی پکے حوالے سے کیسے مطمئن کریں۔ فلسطین میں جنگ بندی کے لیے شاید موجودہ انتخابی مہم تک امریکا کی سیاسی جماعتیں  کچھ نہیں کہیں گی۔ اس لیے امریکی اور اسرائیلی عوام جو کہ جنگ کے مخالف ہیں ان کو اپنی اپنی حکومتوں کو جنگ بندی پر مجبور کرنا ہوگا ورنہ سب جانتے ہیں جب تک امریکا کی مرضی شامل نہ ہو کسی بین الاقوامی عدالت یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بے معنی ہی ہونگی۔

دنیا اگر واقعی سمجھتی ہے کہ فلسطین میں جنگی جرائم ہورہے ہیں اور فوری طور پر جنگ بندی کرائی جائے تو اسے لگاتار اسرائیل پر دباؤ ڈالتے رہنا ہوگا۔ اس کا شاید فی الفور تو کوئی فائدہ نہ ہو لیکن مستقبل میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔ اس سے دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ post conflict scenario  میں اسرائیل سفارتی تنہائی کا شکار ہوجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی الحال ایک آزاد فلسطینی ریاست کا خواب تو تعبیر سے بہت دور ہے۔ اگر جنگ بندی بھی ہوجائے تو یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp