عدالتی اصلاحات اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدتِ ملازمت

پیر 6 مئی 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے یا نہیں؟ یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنا آپ کی یا میری عمر۔ آپ کا تعلق چاہے پاکستان بننے کے بعد پہلی نسل سے ہو یا آپ ابھی ٹین ایج کا ہندسہ عبور کرکے سیاسی بلوغت کے دور میں داخل ہوئے ہیں، پاکستانی عدلیہ کی آزادی، قدغنیں اور مداخلت سے متعلق ضرور کچھ نہ کچھ ہر دور میں سنتے آئے ہوں گے۔

زمانہ طالبعلمی ختم کرکے جیسے ہی شعبہ صحافت میں داخل ہوئے تو عدلیہ کی آزادی کی ایک تحریک ہماری آنکھوں کے سامنے شروع ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تحریک اتنی طاقت پکڑ گئی کہ ملک کے ہر گلی کوچے سے لے کر طاقت کے ایوانوں تک سب حیران ہوگئے کہ انصاف کا حصول لوگوں کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن وہ تحریک جو ججز کی بحالی کے لیے شروع ہوئی تھی آیا اس تحریک کے نتیجے میں انصاف کی بحالی بھی ہوئی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب کسی کو بھی ابھی تک نہیں ملا۔

کیا پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے یا اس میں اب تک مداخلت ہوتی ہے؟ یہ پچھلے کچھ ہفتوں بلکہ مہینوں سے زبان زدِ عام موضوع ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے نظریات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر عدلیہ کی آزادی یا قدغنوں پر توجیہات پیش کررہا ہے۔ عدلیہ کیسے آزاد ہوگی اور کس حد تک ابھی آزاد ہے اس موضوع پر بھی ہم ہر روز شام کو ٹیلی ویژن اسکرینوں پر گرما گرم بحث سنتے رہتے ہیں۔

عدلیہ کی آزادی کے لیے جو سب سے پہلا عنصر ہماری عدلیہ کے اندر اہمیت کا حامل ہے وہ ججوں کی تعیناتی سے متعلق ہے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہماری انتظامیہ، پارلیمان اور عدلیہ نے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے بارہا مختلف تجربات کیے ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہ ہو۔

اگر ہم 90 کی دہائی سے لیکر اب تک ججز کی تعیناتیوں کا جائزہ لیں تو اس حوالے سے 3 طریقہ کار ہمارے سامنے آتے ہیں جن کو اپنایا گیا۔ آیا وہ طریقہ کار کس حد تک عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنے میں کارگر ثابت ہوئے اس کا بھی ہم جائزہ لیں گے۔

‎1996 سے پہلے ہم نے دیکھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے صوبائی حکومتیں، گورنر اور صدرِ پاکستان کوئی نام تجویز کرکے آپس میں مشاورت کرتے تھے اور اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ اس مشاورت کے بعد ہائیکورٹس میں جج تعینات کردیے جاتے تھے۔ اس طریقہ کار پر ہماری عدلیہ کو تحفظات تھے اور عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے تعیناتیوں میں اصلاحات کا مطالبہ ہوتا تھا۔

پھر 1996 سے پہلے والے ججز کی تعیناتیوں کے طریقہ کار کو سپریم کورٹ نے الجہاد ٹرسٹ کیس کے ذریعے اڑا دیا اور عدلیہ میں ججز بھرتی کرنے کا ایک نیا طریقہ کار وضع ہوا۔ اعلیٰ عدالتوں میں ججز بھرتی کرنے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کا کردار اہم ہوگیا اور یہ طریقہ کار کافی عرصے تک چلتا رہا اور عدلیہ تعیناتیوں میں ان اختیارات کو اپنی آزادی سے تشبیہ دیتی تھی۔ پھر کوئی بھی جج تعینات ہونا ہوتا تو اس کا نام چیف جسٹس آف پاکستان تجویز کرتے تھے۔

یہ معاملہ بھی کافی عرصے تک چلتا رہا اور اس کے بعد 18ویں آئینی ترمیم لائی گئی جس میں ججز کے تقرر کے معاملے پر بھی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد ایک طریقہ کار وضع کیا گیا اور پارلیمان کو عدلیہ کے ساتھ ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بامعنی مشاورت کے نکات ڈالے گئے۔ اس کے تحت اگر پارلیمانی کمیٹی تین چوتھائی اکثریت سے کسی جج کا نام مسترد کرتی ہے تو پھر چیف جسٹس کو ایک نیا نام تجویز کرنا پڑے گا۔ گوکہ یہ زیادہ عرصہ نہیں چل پایا کیونکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکومت پر دباو ڈال کر آئین میں 19ویں ترمیم کروائی جس کے بعد پارلیمنٹ کا کردار محض ربڑ اسٹیمپ سے زیادہ نہیں رہا۔

ہم نے دیکھا کہ ججز کی تعیناتیوں کے ان 3 مختلف طریقہ کار اپنانے کے باوجود بھی عدلیہ کی آزادی اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی سے متعلق سوالات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ یہ تینوں طریقہ کار جب ناکام ہوچکے ہیں تو پھر کیا کوئی نیا فارمولہ کامیاب ہوگا؟ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کے حوالے سے جو تجاویز چل رہی ہیں کیا وہ قابلِ عمل ہیں اور کیا سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر اس پر آئین میں ترمیم لاسکتی ہیں جس کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس مدت میں بھی اضافہ ہوگا۔

میرے خیال میں اگر قاضی فائز عیسیٰ اس طرح کی کسی بھی آفر کو قبول کرتے ہیں تو یہ ان کے نام کو داغدار کرے گا، تاہم ججز کی تعیناتی کے لیے ایک شفاف اور غیر جانبدار طریقہ کار ضرور وضع ہونا چاہیے جس میں پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ججز کی تعیناتی کے معاملے پر مساوی اختیارات رکھتے ہوں۔

یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا کہ عدلیہ کی اس حوالے سے کیا سوچ ہے اور  پارلیمان اور انتظامیہ کے مائینڈ میں کیا چل رہا ہے اور آنے والے چند ہفتے عدلیہ اور انتظامیہ کے آپس میں تعلقات کے حوالے سے اہم ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp