ایک ایسے وقت میں جب کہ پاکستان کو لڑکھڑاتی معیشت کے ساتھ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا سامنا ہے، پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی درجہ حرارت جو رنگ اور رُخ اختیار کرچکا ہے، وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے الارمنگ ہے۔
بد اعتمادی اور بدظنی کی اس فضا میں جب کہ متحارب سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل معروف ’دی مِڈیئیٹر گروپ‘ نے زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی ہے۔
گروپ میں شامل معروف چہرے کون سے ہیں؟
سول سوسائٹی، بار کونسل تنظیموں، ہیومن رائٹس تنظیموں اور معتبر صحافیوں پر مشتمل اس وفد کی قیادت امتیازعالم کر رہے تھے۔ اس وفد کے نمایاں ارکان میں ایچ آر سی پی کے حسین نقی، سی پی این ای کے کاظم خان، سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی، سینیئر صحافی سہیل وڑائچ، صباحت ایڈووکیٹ، عابد ساقی، راحیل چیمہ ایڈووکیٹ اور ہومن رائٹس کی خاور ممتاز شامل تھیں۔
گروپ یونہی اچانک سامنے نہیں آگیا:
’دی مِڈیئیٹر گروپ‘ کے حوالے سے سینیئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس گروپ میں کچھ ارکان پیپلزپارٹی اور کچھ ن لیگ کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس گروپ کا اچانک سامنے آنا یونہی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ گروپ اپنی اس ہی طرح کی کاوشوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ ایسے میں ظاہر یہی ہو رہا ہے کہ اس گروپ کے پاس کچھ نہ کچھ مینڈیٹ ضرور ہے اور یہ گروپ اس وقت سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے میں ہے۔
انتخابات اور ایک پیج:
وی نیوز کی جانب سے ’دی مِڈیئیٹر گروپ‘ کے بااثر افراد سے رابطے کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ گروپ کا بنیادی مقصد ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کم کروانا اور تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک پیج پر لانا ہے۔ اس حوالے سے یہ گروپ ایک گریٹ ڈیبیٹ یا گرینڈ ڈائیلاگ کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔
امتیاز عالم نے سیاسی رہنماؤں کو خط لکھ دیے
معلوم ہوا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد سول سوسائٹی کے لیڈر امتیاز عالم نے وزیر اعظم شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کو خط لکھ دیے ہیں، جس میں ایک کثیر الجماعتی کانفرنس کے انعقاد اور عمران خان سے ملنے والے مثبت جواب کے حوالے سیاسی قائدین کو آگاہ کیا گیا ہے۔
عارف علوی اور یاسمین راشد کی لیک کال کا نتیجہ:
اس حوالے سے سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ صدر عارف علوی اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی لیک ہونے والی کال، جس میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے صدر مملکت پر زور دیا تھا کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے۔
سول سوسائٹی کے ارکان اس حوالے سے پہلے بھی ایک کوشش کر چکے ہیں، لیکن تب بیل منڈیر نہیں چڑھی تھی۔ ایسے میں یہ اب دوسری کوشش ہے۔
بڑا نقصان ہو سکتا ہے:
سول سوسائٹی کے وفد کا سیاسی جماعتوں سے ملنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک میں جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے اسے ناصرف کنٹرول کیا جائے بلکہ اس میں بتدریج کمی لائی جائے۔ اس لیے کہ اگر سیاسی جماعتیں حالات کا ادراک نہ کر سکیں تو کوئی بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق اسی بات کے پیش نظر ہم نے پہلی ملاقات عمران خان سے کی ہے۔ کیونکہ وہ ایک پاپولر جماعت کے لیڈر ہیں اور انہوں نے ایک گھنٹہ طویل نشست میں کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کی ہامی بھری ہے تاکہ جو الیکشن کا مسئلہ ہے اس کا حل نکالا جائے اور آگے بڑھا جائے۔
’ملک کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی حسین نقی صاحب کا کہنا تھا کہ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تھا اس وقت بھی سیاسی کشیدگی عروج پر تھی۔ تب بھی ہم جیسے لوگ شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس گئے تھے کہ معاملات کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے۔
آج بھی سول سوسائٹی کے لوگ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے بات کررہے ہیں تاکہ مسئلے کا حل نکالا جائے اور انتخابات پر سب کو یکسو کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک کی بہتری کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
’ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بات کریں گے ‘
سینیئر صحافی حسین نقی کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بغیر بات کریں گے، تمام سیاسی لوگ باہم مذاکرات کریں، اس کاوش کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام ہونا چاہیے۔ ہمارا ملنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ملک میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد ہو سکے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے نئی تاریخ دی ہے اگر اس کا سیاسی حل نکال آیا تو الیکشن کمیشن دوبارہ بھی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔
حسین نقی کے مطابق سیاسی جماعتوں کو جمہوری رویہ اپنانا چاہیے اور جارحانہ انداز سے گریز کرنا چاہیے۔
عمران خان کی رضامندی کی وجہ؟
عمران خان کی جانب سے کثیرالجماعتی کانفرنس میں شرکت کے لیے تیار ہونے کی ایک وجہ انتخابات کا یک نکاتی ایجنڈا بھی ہے، حالانکہ ماضی میں کئی کوششوں کے باوجود عمران خان کو قائل کرنے میں ناکامی ہوئی تھی۔
’عمران خان کو بہت سے تحفظات تھے‘
لاہور ہائی کورٹ بار کی سیکریٹری صباحت رضوی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے خان صاحب سے بات کی تو بہت سے پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ عمران خان کو بہت سے تحفظات بھی تھے، لیکن انہوں سول سوسائٹی کی اس کاوش کو سراہا کہ آپ مڈیئشن کے لیے باہر نکلے ہیں۔
صباحت رضوی کا کہنا تھا کہ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم کثیر الجماعتی کانفرنس کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
کشیدگی سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں گا:
سول سوسائٹی کے نمائندوں کے مطابق اگر بڑی سیاسی جماعتیں ان کی کال پر تیار ہوجاتی ہیں تو پاکستان بار کونسل ایم پی سی کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ اگر یہ معاملہ حل ہو جائے تو پاکستان آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ اس کشیدگی سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں گا۔