بلوچستان اور سندھ کے کچھ علاقوں میں اسمگل ہوکر آنے والے ایرانی پیٹرول کا استعمال تو ہر کسی کے علم میں تھا لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں بھی ایرانی پیٹرول فروخت ہورہا ہے۔
ضلعی انتظامیہ پشاور نے ڈھابہ پیٹرول اسٹیشنز (منی پیٹرول پمپس) کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کا آغاز کردیا ہے جو انتظامیہ کے مطابق شہر میں غیر معیاری ایرانی پیٹرول فروخت کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
ضلعی انتظامیہ نے صرف رواں ہفتے کے دوران صرف ایک دن میں 21 ڈھابہ اسٹیشنوں کو سیل کیا اور مشین ضبط کرنے کے ساتھ مالکان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ایرانی پیٹرول کے خلاف ضلعی انتظامیہ اچانک حرکت میں کیوں آئی؟
پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ایرانی پیٹرول کے خلاف آپریشن کا آغاز پختونخوا پیٹرولیم ڈیلرز اینڈ کیرج ایسوسی ایشن کے مطالبے پر کیا ہے۔
ایسوسی ایشن نے رواں ہفتے کے آغاز میں ایرانی پیٹرول کی فروخت کے خلاف پیٹرول اسٹیشنز بند کرکے احتجاج کیا۔ اور شہر کے گلی محلوں میں قائم منی پیٹرول پمپس بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پختونخوا پیٹرولیم ڈیلرز اینڈ کیرج ایسوسی ایشن نے کمشنر پشاور ڈویژن کی جانب سے یقین دہانی کے بعد ہڑتال ختم کرکے پیٹرول کی سپلائی شروع کی تھی۔
ایسویسی ایشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں ہر گلی محلے میں مشین لگا کر پیٹرول فروخت کیا جاتا ہے جس سے کمپنیوں کی بدنامی ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان منی پمپس پر غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ پیٹرول فروخت کیا جاتا ہے۔
کیا ایرانی پیٹرول خیبرپختونخوا میں ملتا ہے؟
ضلعی انتظامیہ کے مطابق پشاور میں غیر معیاری ایرانی پیٹرول ملتا ہے جو اکثر منی پمپس یا گلی محلے کے دکاندار ہی فروخت کرتے ہیں۔
انتظامیہ نے بتایا کہ ایرانی تیل کے خلاف آپریشن کے دوران 21 منی پمپس کو سیل کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر غیر معیاری ایرانی پیٹرول فروخت کرتے تھے۔ ’یہ نہ صرف انجن کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ کسی حادثے کا سبب بن سکتا ہے‘۔
ضلعی انتظامیہ نے مزید بتایا کہ ایسے پمپس کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری رہے گا۔
پشاور میں ایک پمپ کے مالک کے مطابق پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں کھلے عام ایرانی پیٹرول فروخت ہوتا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ منی پمپس والے ایرانی ملاوٹ شدہ پیٹرول فروخت کرتے ہیں۔ ’گلی محلے کے دکانداروں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، جو چاہے فروخت کرتے ہیں‘۔
پشاور کی جی ٹی روڈ پر واقع پمپ کے مالک نے بتایا کہ ایرانی تیل کراچی اور کوئٹہ سے اسمگل ہوکر یہاں تک آتا ہے اور خیبر پختونخوا میں ملاوٹ کرکے فروخت کیا جاتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا کہ منی پمپس کے مالکان عام پیٹرول ایرانی پیٹرول کے ساتھ ملاتے ہیں اور سرکاری نرخ پر فروخت کرکے منافع کماتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی پیٹرول منی پمپس مالکان کو 70 روپے تک کم قیمت میں پڑتا ہے اور ایک ہزار لیٹر ایرانی پیٹرول میں 500 لیٹر تک عام پیٹرول ملایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے چھوٹے پمپس کی نشاندہی ہوئی ہے جن کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
12 سال سے کاروبار کررہے ہیں، آج ایرانی پیٹرول کا خیال آیا، منی پمپس مالکان
دوسری جانب منی پمپس ایسوسی ایشن نے انتظامیہ کی جانب سے کارروائیوں کو کاروبار دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔
صدر ایسوسی ایشن شاہ جہان خان نے میڈیا کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں 6 ہزار سے زیادہ منی پمپس ہیں جو گزشتہ 12 سالوں سے قائم ہیں اور وہ متعلقہ ٹاؤن انتظامیہ کو ٹیکس دیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ 12 سالوں میں کبھی کسی کو ایرانی تیل کا خیال نہیں آیا اور آج اچانک کاروبار کو بند کیا جارہا ہے۔ ’پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اسی طرح سب غلط نہیں ہیں اور نہ ایرانی پیٹرول فروخت کرتے ہیں‘۔
شاہ جہان خان نے بتایا کہ منی پمپس مالکان مختلف کمپنیوں سے تیل خرید کر فروخت کرتے ہیں۔
’پمپس مالکان لیباریٹری سرٹیفکیٹ پیش کریں گے‘
ضلعی انتظامیہ اور پختونخوا پیٹرولیم ڈیلرز اینڈ کیرج ایسوسی ایشن نے اتفاق کیا ہے کہ تمام پمپس مالکان خود پیٹرول لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا کر سرٹیفکیٹ انتظامیہ کو دیں گے تاکہ غیر معیاری اور ایرانی پیٹرول کی فروخت کو روکا جاسکے۔