روسی صدر پوتن نے طالبان کے ساتھ تعلقات بنانے کو بہت ضروری قرار دیا ہے۔ پوتن کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے حکمران ہیں، ہمیں حقیقت تسلیم کرنی چاہیے۔ چین کی طرح روس نے بھی کابل میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا ہے، بند نہیں کیا۔ روسی صدر نے کچھ ہفتے پہلے مختلف روسی وزارتوں سے کہا تھا کہ وہ افغان طالبان کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف نے بتایا ہے کہ منسٹری آف جسٹس اور منسٹری آف فارن افیئر نے طالبان کو ’ٹیررسٹ لسٹ‘ سے نکالنے کی پروپوزل دے دی ہے۔
کابلوف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد افغان طالبان نے ایک طویل سفر طے کر لیا ہے۔ پھر بھی ابھی بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے ہی روسی قیادت فیصلہ کرے گی۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے میڈیا انٹرویو میں کہا ہے کہ افغان طالبان بطور تنظیم ٹیررسٹ گروپ نہیں ہیں۔ نہ یو این نے ان کی تنظیم کو ٹیررسٹ آرگنائزیشن ڈیکلئیر کیا ہوا ہے۔ ان کے بارہ، پندرہ لوگ ہیں جن کو ’ٹیررسسٹ لسٹ‘ میں ڈالا ہوا ہے۔ طالبان کو ’ٹیررسٹ لسٹ‘ سے ہم نکال دیں گے۔ یہ افغانستان کی اصل طاقت ہیں۔ لاوروف کا کہنا تھا کہ قازقستان نے افغان طالبان کو ’ٹیررسٹ لسٹ‘ سے ہٹا دیا ہے۔ ہم بھی جلد ایسا ہی کریں گے۔ ہم اپنے سنٹرل ایشین اتحادیوں کی طرح افغانستان کی کئیر کرتے ہیں، یہی حقیقت ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ پوتن نے اٹھائیس مئی کو تاشقند میں رپوٹر سے کہا ’ یہ لوگ (افغان طالبان ) اپنے سارے ملک پر کنٹرول رکھتے ہیں، وہاں حکمران ہیں۔ ان سے تعلقات بنانے کیسے ہیں الگ سوال ہے، ہمیں ہر صورت ان کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے۔‘
سر گئی ناریشکن، روسی انٹیلیجنس ایف آئی ایس کے ہیڈ ہیں۔ ناریشکن نے بشکیک میں کہا کہ داعش اور القاعدہ کو امریکی برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جنم دیا تھا۔ ناریشکن بشکیک میں کامن ویلتھ آف انڈیپینڈنٹ سٹیٹ سی آئی ایس کے اجلاس کے موقع پر موجود تھے، وہاں انہوں نے یہ ریمارکس دیے۔
ان کا کہنا تھا اس کی اکلوتی مثال صرف شام نہیں ہے، افغانستان بھی اس کی مثال ہے۔ روس بار بار یہ بات مختلف فورمز پر دہراتا ہے کہ امریکا سنٹرل ایشیا میں ٹیرر ازم کو سپورٹ کرتا ہے۔ قازقستان کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے ہیڈ نے بھی کہا ہے کہ شمالی افغانستان میں دہشت گرد گروپ بڑھ گئے ہیں۔
روس نے طالبان کو دو ہزار تین ہی سے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ اب ہر لیول کی روسی قیادت سے افغان طالبان کے لیے پیار چھلک رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
افغان طالبان، سنٹرل ایشیا اور روس سب کو داعش سے خطرہ ہے۔ اس کے خلاف موثر ترین قوت اور اتحادی افغان طالبان ہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے۔ وہ روس کے خلاف یورپ امریکا کی بڑھتی ہوئی پابندیاں اور مخالفت ہے۔
روس نے فروری دو ہزار بائیس میں یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ تب امریکا اور یورپ نے روس پر سخت معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے روس سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔ یوکرین کے کیو سکول آف اکنامکس کے مطابق اب تک سولہ سو ملٹی نیشنل کمپنیاں روس میں اپنا بزنس سمیٹ چکی ہیں یا نکل گئی ہیں۔ اکیس سو ملٹی نیشنل کمپنیاں اب بھی روس میں موجود ہیں اور اپنا بزنس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو کمپنیاں رک گئی ہیں ان کے رکنے کی وجہ روسی حکومت کے سخت اقدامات ہیں۔ ڈیپارچر ٹیکس اور اثاثوں کی منتقلی پر پچاس فیصد کٹوتی جیسے اقدامات نے کمپنیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ روس میں موجود رہیں۔
امریکی اور اس کے یورپی اتحادیوں نے روس کو انڈر پریشر کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ یوکرین کو پچاس ارب ڈالر قرض دیا جائے گا۔ اس قرض کی واپسی کے لیے روس کے منجمد اثاثوں کا منافع استعمال کیا جائے گا۔ روس کے 242 ارب ڈالر بیلجیم کے ایک مالیاتی ادارے کے پاس ہیں جو کہ پابندیوں کی وجہ سے فریز کیے جا چکے ہیں۔ روسیوں کو افغانستان سے دوبارہ سچا پیار اسی وجہ سے ہوا ہے۔
افغانستان میں موجود مسلح دہشت گرد کوئی نیا چن نہ چڑھا دیں۔ اس کے لیے روس افغان طالبان کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ اس نئی صورتحال میں ہمارے لیے کیا ہے؟
یہ حوالدار بشیر کو سوچنا ہے، ہم نے کچھ سوچ بھی لیا تو کیا؟ اس جوان کا سارا دھیان اس وقت ایس آئی ایف سی کی جانب ہے کہ سرمایہ کاریاں آئیں اور وہ بیٹھ کر نوٹ گنے۔ اپنے چکروں میں وہ یہ بھی مس کر گیا کہ جب روسی انرجی پر پابندی لگا کر یورپ ٹھنڈ سے کپکپا رہا تھا، ہمارا بھارت مہان روسی تیل سستا خرید کر کمائیاں کر رہا تھا۔ اس جانب گوروں کا دھیان ڈلواتا چار طعنے ہی دے دیتا گوروں کو ان سے پوچھتا کہ ہن آرام ای لیکن نہیں، پتہ نہیں کدھر بزی تھا، یہ ٹوٹ پڑنی سیاست اس کو مصروف بھی تو بہت رکھتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔