مودی سرکار پر تنقید کرنے والے بھارت ہی نہیں بلکہ امریکا اور دیگر ممالک میں بھی خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے، ہندوتوا نظریے پر عمل پیرا مودی سرکار نے امریکی شہریوں اور دیگر غیرملکیوں کو بھی اس قدر خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے کوئی بھی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔
مزید پڑھیں
امریکی میڈیا ادارے ’ووکس میڈیا‘ نے حال ہی میں اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ سیاسی قائدین، ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے انٹرویوز میں یہ بات سامنے آئی کہ انڈیا میں نام نہاد بھارتی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھانے والے انڈین شہریوں کے علاوہ امریکی شہریوں کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
’ووکس میڈیا‘ کے مطابق، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر تنقید کرنے والے بھارتی نژاد امریکی ادیبوں، لکھاریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو مودی سرکار کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ انہیں آن لائن پلیٹ فارمز پر ہراساں کیا جائے گا اور اگر انہوں نے اپنی روش نہ بدلی تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا۔
کینیڈا میں علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اور امریکا میں سکھ علیحدگی پسند رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی سرکار اپنے مخالفین کا سمندر پار پیچھا کرنے اور جان سے مارنے کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی نژاد امریکی شہری امریکا میں بھی مودی سرکار کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے سے خوفزدہ ہیں۔
’کشمیری صحافی کا امریکا میں بھی پیچھا کیا جارہا ہے‘
رپورٹ میں کشمیری صحافی راقب نائیک کا تذکرہ بھی ہے جو بھارتی مظالم سے بچنے کے لیے اگست 2020 میں امریکا منتقل ہوگئے تھے۔ اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا منتقل ہونے کے بعد بھی راقب نے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف اپنے قلم کا استعمال جاری رکھا۔
راقب نائیک کو نومبر 2020 میں بھارتی انٹیلیجنس افسر کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا گیا تھا، ’میں نے تمہارے والد کو چائے پر مدعو کیا ہے۔‘ کشمیری صحافی کو بعد میں بھی اس طرح کے پیغامات ملے جن میں انہیں اشارتاً بتایا جاتا کہ ان کے خاندان کے افراد کو ہراساں کیا جارہا ہے۔
راقب نائیک کو آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی ہراساں کیا جاتا رہا۔ جون 2022 میں راقب نائیک کسی دوسرے ملک میں موجود تھے جب انہیں ایک پیغام موصول ہوا، ’تمہارا پیچھا کیا جارہا ہے اور تمہیں ختم کردیا جائے گا۔‘ یہ پیغام ملنے کے بعد وہ فوری طور پر واپس امریکا روانہ ہوگئے۔
بھارتی حکومت کی امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوششوں اور انہیں ہراساں کرنے کے اقدامات کے باوجود امریکا نے اس بابت کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کی۔ امریکا میں متعلقہ کمیشن کے ارکان متعدد بار اپنی حکومت کو بھارت کو مذہبی آزادی سے متعلق خدشات پر خصوصی تشویش کے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دے چکے تاہم وزیر خارجہ انٹونی بلنکن بھارت کو اب بھی اس فہرست میں شامل کرنے پر تیار نہیں۔