بھارتی الیکشن میں بالی ووڈ مودی کی انتخابی مہم چلا رہا ہے؟

اتوار 14 اپریل 2024
author image

ڈاکٹر نعمان انصاری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمہوریت کے لیے پروپیگنڈہ ایسا ہی ہے، جیسا آمریت کے لیے تشدد (ولیم بلم، امریکی صحافی اور لکھاری)

خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کادعوی کرنے والے ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا دیرینہ خواب تھا کہ وہ بالی ووڈ کو نہ صرف قابو کرسکیں بلکہ اپنے متعصب سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال بھی کرسکیں۔ مودی کے خیال میں بالی ووڈ بھارت کو دنیا میں ایک ‘ہندو نظریاتی ریاست’ کہ طور پر پیش کرنے کی بجائے روادراری، انسانی اقدار، لبرل نظریات اور انسان دوستی کے گڑھ کے طور پر پیش کر رہا تھا جو کہ ظاہر ہے بی جے پی کے متعصب سیاسی نظریے کے یکسر برخلاف ہیں۔ مودی اور بی جے پی بھارت کو ایک ایسا ملک دیکھنا چاہتے ہیں جہاں پر ہندو، سکھ، مسلمان اور عیسائی رواداری کہ ساتھ نہ رہ سکیں بلک وہ بھارت کو ایک ایسی ہندو ریاست کہ طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس کی منزل ‘ ہندو ثقافتی نشاۃ ثانیہ’ تک ہو۔

بالی ووڈ کو دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت مانا جاتا ہے۔ دنیا میں سالانہ سب سے زیادہ فلمیں بھی بالی ووڈ بناتا ہے اس لیے اس کا اثر بھی ‘ٹرانس نیشنل’ ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے خلاف بنائی جانے والی فلموں کے اثرات بھی بھارت تک محدود نہیں رہتے۔ بالی ووڈ میں مسلمان ہمیشہ سے اثر رسوخ کے حامل رہے ہیں، جیسے عامر، سلمان اور شاہ رخ خان پچھلے تیس سالوں سے انڈین سینما پر حکومت کررہے ہیں۔ مگر بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سے مختلف طریقوں سے بالی ووڈ کے ‘تخلیقی اظہار” اور “آزادی اظہار” کو دبایا جارہا ہے۔ جیسے فلم کمپنیوں کی ٹیکس کی چھان بین ہو یا اداکاروں اور ہدایت کاروں کو مختلف طریقوں سے حراساں کرنا ہو( شاہ رخ خان کے بیٹے کے پاس منشیات نکلنے کا جھوٹا مقدمہ اس کی بہترین مثال ہے)۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بالی ووڈ بطور انڈسٹری ان زیادتیوں پر خاموش رہا ہے حتی کہ مودی کے پہلے دور حکومت میں جو 2014 میں شروع ہوا تھا، بی جے پی کے ‘آئی ٹی سیل’ نے بالی ووڈ میں کام کرنے والے مسلمانوں پر سوشل میڈیا کہ ذریعے انتہائی سنگین الزامات لگانے شروع کیے۔

اس سب دباؤ کا مقصد بالی ووڈ کے با اثر لوگوں کو گھٹنوں پر لانا تھا اور ایسا ہوا بھی جیسے 2015 میں عامر خان کو سوشل میڈیا پر اس بات پر قتل کی دھمکیاں ملیں جب انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ اسی سال سیف علی خان اور ان کی (ہندو) بیوی کرینہ کپور اپنے ہی بچے کا نام ‘تیمور’ رکھنے پر (تیمور ایک مسلم حکمران تھا جس کو مغرب میں تیمورلین کہ نام سے جانا جاتا ہے) سوشل میڈیا پر ذاتی سطح کے حملوں کا نشانہ بنے۔

راقم ان واقعات کی مزید تفصیل میں جائے بنا اس بات کی طرف آتا ہے کہ مودی سرکار کس طرح 2024 کے انتخابات کے لیے بالی ووڈ کا استعمال کررہی ہے۔ جن فلموں کا ذکر اس مضمون میں آگے کیا جائے گا وہ سب پچھلے ایک سال میں بنائی گئی ہیں۔ اور اب انہیں الیکشن سے پہلے ریلیز کیا جارہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فلمیں جو سیاسی بیانیہ بنارہی ہیں وہ تو اہم ہے ہی لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی فلم بزنس کے آن لائن پلیٹ فارمز اور میڈیا کہ مطابق ان میں بہت سی فلمیں وہ لوگ بنارہے ہیں یا ان میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جن کا براہ راست تعلق بی جے پی یا آر ایس ایس سے ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کے بی جے پی کے رہنما اور کچھ جگہوں پر ان کی ریاستی حکومت ان نفرت انگیز فلموں کی تشہیر میں پوری طرح شامل نظر آتی ہے۔ ذیل میں ان پراپیگنڈہ فلموں کے نام اوراس کے سرمایہ کاری کرنے والوں سے متعلق تفصیل پیش کی گئی ہے:

1:ویرسوارکر

یہ فلم ‘ہندوتوا’ کا نظریہ پیش کرنے والے دامودر ویر سوارکر کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔ اس کے ہدایت کاری رندیپ ہوڈا ہیں جنہوں نے خود ہی اس میں سوارکر کا کردار ادا کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس فلم کے پروڈیوسر اننت پنڈت ہیں جو خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ پچھلے 30 سالوں سےبی جے پی کے ممبر ہیں۔ ہندی زبان کے سب سے بڑے اخبار دینک بھاسکر کے مطابق اننت پنڈت مہاراشٹر میں بی جے پی کے خزانچی ہیں۔ اس سے پہلے اننت پنڈت نے نریندر مودی کی بائیوپک بھی بنائی تھی اور وہ فلم 2019 کے لوک سبھا الیکشن (بھارتی پارلیمنٹ) سے پہلے ریلیز کی گئی تھی۔ اننت پنڈت کو وزیر اعظم مودی کے قریبی ساتھیوں میں اس وقت سے شمار کیا جاتا ہے جب مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔

2: میں اٹل ہوں

ایک اور شخص جس نے اننت پنڈت کے ساتھ مل کر مودی کی بائیوپک اور ویر سوارکر بنائی وہ ہے سندیپ سنگھ۔ یہ بھی ‘میں اٹل ہوں’ کے ایک پروڈیوسر ہیں۔ میں اٹل ہوں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بائیو پک ہے جو کچھ دن پہلے ریلیز کی گئی ہے۔ بھارتی اپوزیشن ماضی میں یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ سندیپ سنگھ کے بی جے پی کہ ساتھ گہرے اور پرانے تعلقات ہیں۔

3: رضاکار

یہ ایک تیلگو فلم ہے جو کہ ہندی اور ملیالم زبان میں بھی “رضاکار:دی سائلنٹ جینوسائڈ آف حیدر آباد” کے نام سے ریلیز کی گئی ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر گڈر نارائن ریڈی ہے جس نے سمرویر پروڈکشنز کے بینر تلے یہ فلم بنائی ہے۔ نارائن ریڈی تلنگانہ میں بی جے پی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر ہیں اور یہ بھونگر کی اسمبلی سیٹ سے 2023 کے ریاستی الیکشن میں بی جے پی کے نامزد امیدوار تھے۔ اس سیٹ پر ریڈی نے صرف 9200 ووٹ لیے اور الیکشن بری طرح ہار گئے تھے۔

4: جے این یو-جہانگیر نیشنل یونی ورسٹی

اس فلم کو بنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بائیں بازو کی طلبہ یونین اور سیاست پر شدید تنقید کی جائے اور بائیں بازو کے لوگوں کو بھارت کا غدار قرار دیا جائے۔ بالی ووڈ کی طرح مودی کی شدید خواہش ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی جو بھارت میں سب سے اعلی درجے کی یونیورسٹی مانی جاتی ہے وہاں سے بائیں بازو کی طلبہ یونین کا خاتمہ ہوسکےاور بی جے پی کا طلبہ ونگ یونین کا الیکشن جیت سکے لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ یونی ورسٹی کو بدنام کیا جائے اور اساتذہ اور طلبہ کو دباؤ میں لایا جائے۔ یہ فلم مہاکال موویز لمیٹڈ نے پروڈیوس کی ہے۔ اس فلم کے ایک ہدایت کار وشنو تانیتا ہیں جو گوپل کنڈا کے بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ گوپل کنڈا، ہریانہ سے سیاستدان ہیں جن کا بی جے پی کے ساتھ انتخابی الائنس ہے۔

5: ایکسیڈنٹ اور کانسپریسی، گودھرا

2002 گودھرا ٹرین حادثے کے واقعے پر دو فلمیں بنائی گئی۔ یہ وہی ناگہانی حادثہ ہے جس کہ بعد گجرات میں مسلمانوں کہ خلاف فسادات شروع ہوئے تھے اور اس وقت گجرات میں مودی کی حکومت تھی۔ ایک فلم ‘دی سبرمیتی رپورٹ’ جس کو ایکتا کپور کی بالا جی فلمز نے پروڈیوس کیا ہے لیکن ایک اور فلم جس نے زیادہ توجہ حاصل نہیں کی وہ ہے ‘ایکسیڈنٹ اور کانسپریسی: گودھرا جس کو اوم تری تترا پروڈکشنز نے بنائی ہے۔ اس فلم میں رنویر شورے، منوج جوشی اور ہتو کنوڈیا نے اداکاری کی ہے۔ کنوڈیا ایک گجراتی اداکار ہیں جو2002سے 2017 تک گجرات سے بی جے پی کے ایم ایل اے بھی ر ہے ہیں۔ اس کے والد بھی بی جے پی کے سابق ایم ایل اے رہے ہیں۔ اس فلم کا دوسرا مرکزی کردار منوج جوشی ہے جس نے بہت سی گجراتی فلموں میں کام کیا ہے اور اس کے علاوہ بی جے پی کے انتخابی اشتہارات میں بھی باقاعدگی سے نظر آتا رہا ہے۔ اس فلم کے پروڈیسر پی جے پروہت کو بھی بی جے پی کے حامی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

6: بنگال 1947

اس فلم کا مرکزی خیال تقسیم کے دوران بنگال میں ہونے والے فسادات ہیں۔ تاریخی حقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ تشدد کے واقعات اور فسادات دونوں طرف سے ہوئے تھے لیکن فلم میں صرف مسلمانوں کی طرف سے کیے گئے تشدد کو دکھایا گیاہے۔ اس فلم کی ہدایت کاری آکاش ادیتہ لامہ نے کی ہے۔ اس فلم کمپنی کی ویب سائٹ کہ مطابق یہ کمپنی 2016 میں بنائی گئی ہے جس کا مقصد ایسی فلمیں بنانا ہے جو قدیم اور جدید بھارتی اقدار اور فلسفے کا فروغ کرسکیں۔ اس کمپنی کے چیئرمین کٹھیالہ نظریاتی طور پر ہندوتوا کے حامی ہیں۔ 2019 میں بی جے پی نے کٹھیالہ کو ہریانہ ایجوکیشن کونسل کا چیئرمین لگایا تھا۔

معاملہ صرف فلمیں بنانے اوران کو فنانس کرنے کی حد تک محدود نہیں بلکہ بی جے پی، آر ایس ایس اور ان سے منسلک لوگوں نے ان فلموں کی سینما گھروں میں فری اسکیننگ، ٹیکس میں چھوٹ اور سوشل میڈیا پر تشہیر بھی کرائی ہے۔ ایسا لگتا ہے ان فلموں کہ ذریعےاسلاموفوبیا کا ماحول بنانا بی جے پی کی انتخابی اسٹرٹیجی میں شامل ہے۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ڈیجیٹل پورٹل دی کوئنٹ، انڈیا اور انڈین فلم بزنس ویب سائٹ سے مدد لی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp