صولت مرزا نے کبھی اعترافِ جرم نہیں کیا تھا، سزا سنانے والے جج نے مزید کیا انکشافات کیے؟

منگل 4 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ بات ہے 80 کی دہائی کی جب کراچی میں مذہبی اور نظریاتی سیاست کے علاوہ قوم پرست نظریہ رکھنے والے فاروق دادا، ریحان کانا، ذکی اللہ اورصولت مرزا جیسے باغی نوجوانوں کے نام گونجنے لگے، یہ وہ باغی تھے جو حقوق لڑ کر لینے اوراپنی شناخت کے لیے کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیار تھے۔

یہی وہ وقت تھا جب کراچی کی سیاست نے تشدد کا روپ اپنایا، سینیئر صحافی اے ایچ خانزادہ کے مطابق 4 ہزار کارکنان تھے جو کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا چکے تھے یا اٹھانے کو تیار تھے جن میں ایک نام صولت مرزا کا بھی تھا، یہ وہ راستہ تھا جس نے ان کی اپنی زندگیاں تباہ و برباد کردیں۔

صولت علی خان المعروف صولت مرزا دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی سیاست میں موضوعِ بحث بن گیا، ہرکوئی اس کی طاقت کے گن گانے لگا، اس وقت کی بات کی جائے تو کچھ سینیئر صحافی یہ بھی بتاتے ہیں کہ شہری مسائل کے فوری حل کے لیے اس سے رجوع کیا کرتے تھے۔

سینیئر صحافی جنید شاہ بتاتے ہیں کہ جس وقت ہم فیلڈ میں آئے وہ ایم کیو ایم کے عروج کا وقت تھا اور اسی دوران ایم کیو ایم کی قیادت اور ہائی پروفائل ٹارگٹ کلرز کے خلاف مقدمات این آر او کے تحت ختم کردیے گئے۔ ’یہ ہمیں تب پتا چلا جب ہم ان مقدمات کے حوالے سے اخبار کے لیے کام کررہے تھے، مشکلات بہت تھیں لیکن خبر کی تلاش کے دوران ہمارے سامنے صولت مرزا کا نام آیا‘۔

جنید شاہ کے مطابق جب یہ نام سامنے آیا تو ہم نے اس پر کام شروع کیا اور اس وقت عدالتوں میں یہ عالم تھا کہ صولت مرزا کا نام لیتے ہوئے بھی لوگ ڈرتے تھے، کسی عدالت سے اگر معلومات چاہیے ہوتی تھیں تو ہمیں ریڈر یا کسی بھی سورس کے کان میں سرگوشی کرنا پڑتی تھی کہ سر وہ صولت مرزا کا کیس لگا تھا آپ کے پاس اس کی معلومات چاہیے، جس پر پہلے تو وہ ایک دم چونک کر دیکھتا تھا پھر دوبارہ پوچھتا تھا کس کا پتا کرنا ہے؟

جنید شاہ کہتے ہیں کہ یہ اس لیے تھا کہ یہ لوگ گمان نہیں رکھتے تھے کہ کوئی صولت مرزا کے کیس کے حوالے سے بھی پوچھ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صولت مرزا عوامی مقامات پر یا عام لوگوں میں تو اپنی دہشت بنا چکا تھا لیکن عدالتوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں تھی۔

جنید شاہ کا کہنا ہے کہ 2007 سے 2013 تک ہم نے عدالتوں میں اس طرح کی اسٹوریز پر کام کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی اس دوران صولت مرزا کا نام کسی اخبار میں نہیں چھپا اس کی وجہ صرف اور صرف خوف تھا اور یہ سال 2015 میں تب ٹوٹا جب صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے۔

جنید شاہ کے مطابق صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ سےعوام میں یہ پیغام گیا کہ ایم کیو ایم کی ہائی کمان کے خلاف بھی کچھ ہوسکتا ہے اور پہلی بار یہ خوف کا بت ٹوٹا۔ ’یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا کہ صولت مرزا کے ساتھ ایسا ہونا ممکن ہے‘۔

جنید شاہ بتاتے ہیں کہ پھر ایک دن ہم انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 5 میں صبح سے موجود تھے کیوںکہ صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے تھے، ماحول میں بہت خوف تھا، کوئی کسی سے پوچھ رہا تھا نا ہی کوئی صولت مرزا کا نام لے رہا تھا، 3 سے 4 بجے کے وقت معلوم ہوا کہ صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ پر جج جاوید عالم نے دستخط کردیے ہیں، اس موقع پر وہاں چند رپورٹرز تھے جنہوں نے یہ خبر بریک کی اور یہ کراچی کے اعتبار سے اس وقت کی سب سے بڑی خبر تھی جس کا کئی دنوں تک چرچا ہوتا رہا، لیکن اس میں بھی ٹویسٹ یہ آیا کہ پھانسی سے قبل صولت مرزا کا ویڈیو بیان آیا جس کی وجہ سے پھانسی پر عملدرآمد روک دیا گیا، پھر اس کے بعد مزید 2 بار ان کے ڈتھ وارنٹ جاری ہوئے اور 11 مئی 2015 کو انہیں مچھ جیل بلوچستان میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

جب صولت مرزا کا بیان ٹی وی پر چلا

گولیمار کا علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کا کہنا ہے کہ میں مغرب کے بعد گھر کی چیزیں لینے مارکیٹ گیا اور بال بھی کٹوانے تھے تو ہیئر ڈریسر کی شاپ پر تھا کہ اتنے میں ٹی وی اسکرین پر صولت مرزا کا بیان نشر ہونے لگا۔

انہوں نے کہاکہ یہ وہ وقت تھا جب صولت مرزا کو اگلے دن پھانسی لگنی ہے اور اسکرین پر ان کا بیان آگیا، عجیب خیالات دل میں پیدا ہورہے تھے جیسے شاید اب پھانسی نا دی جائے لیکن جیسے جیسے شور ہوا کہ صولت مرزا ٹی وی پر آرہا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے اس چھوٹی سی دکان میں شہریوں کا اتنا رش لگ گیا کہ سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔

شہری کے مطابق بہت سے لوگ صولت مرزا کو دیکھنا چاہتے تھے کیوںکہ اس کی اب تک ایک تصویر تھی جو سب دیکھ چکے تھے اور یہ جیل میں جانے کے بعد پہلی بار تھا کہ صولت مرزا کو لوگ دیکھ رہے تھے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شہری نے صولت مرزا کے حوالے سے بتایا کہ انہیں گرفتار کرکے آلٹری میدان لایا گیا، انہیں پاکستان لانے کے لیے ایک ایسا جال بچھایا گیا تھا جس میں وہ بری طرح پھنس گیا۔

انہوں نے کہاکہ 19 برس کا لڑکا تھا جو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے مشہور تھا اسے کال کی گئی کہ ایک مسئلہ درپش ہے جسے حل کرنے کے لیے آپ کو پاکستان آنا ہوگا اور یہاں پہنچتے ہی چوہدری اسلم نے انہیں گرفتار کرلیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صولت مرزا جب جیل گئے تو وہاں سے ان کا تنظیمی نیٹ ورک چلتا رہا، کراچی میں چلنے والے معاملات کے لیے صولت مرزا کو کہاں رہنا ہے یہ اہم نہیں، صولت مرزا کا وجود ضروری تھا۔

جیل ذرائع کے مطابق اس وقت 4 مختلف چینلز کے لیے انٹینے پھانسی وارڈ پر لگائے گئے تھے جنہیں اس وقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہٹوا دیا، بعد ازاں ڈپٹی جیل سپرنڈنڈنٹ نے دوبارہ لگوا کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ صولت مرزا جیل میں آزادانہ نقل و حرکت کیا کرتا تھا اور پھانسی وارڈ میں ہونے کے باوجود جیل میں ملاقاتیں کیا کرتا تھا اور ہدایات بھی جاری کرتا تھا۔

سزائے موت سنانے والے جج کی وی نیوز سے بات چیت

صولت مرزا کو سزائے موت سنانے والے سابق جج محمد جاوید عالم نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ صولت مرزا کا کیس ملٹری کورٹ میں چل رہا تھا پھر جب اس زمانے میں ملٹری کورٹس ختم ہوئیں تو انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور مجھے بھی وہاں بطور جج تعیانات کیا گیا تو یہ کیس میرے پاس آیا۔

صولت مرزا اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا

سابق جج نے کہاکہ اتنا مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ صولت مرزا کا تعلق اچھے خاندان سے ہے، ان کے ماں باپ کو جب بطور گواہ پیش کیا گیا تو لگا کہ یہ ایک اچھا خاندان ہے۔

گرفتاری کے وقت صولت مرزا سے کیا برآمد ہوا؟

سابق جج نے کہا کہ جب صولت مرزا کو حراست میں لیا گیا تو اس سے مختلف کارڈز برآمد ہوئے تھے جو مختلف ممالک کے تھے، کسی کارڈ پر اسے صحافی ظاہر کیا گیا، کسی پر یہ فری لانسر تھا۔

دوران ٹرائل صولت مرزا نے اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا

سابق جج کے مطابق صولت مرزا نے دوران ٹرائل کبھی بھی اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا، اگر تو اس نے اعتراف جرم کیا ہوتا تو وہ کبھی اپیل میں نہیں جاتے، جہاں تک بات ہے 164 کے اعترافی بیان کی تو اس کے جو بنیادی ضوابط ہیں انہیں پورا نہیں کیا گیا۔

صولت مرزا کا اقبال جرم اور ایم کیو ایم

سابق جج کہتے ہیں کہ صولت مرزا نے اعتراف تب کیا جب سزا ہوچکی تھی اور اپیلیں ختم ہوچکی تھیں، کیوںکہ جس جماعت سے اس کا تعلق تھا انہوں نے شاید اس کو سپورٹ کرنا چھوڑ دیا تھا۔

میں نے سنا کہ صولت مرزا ایک اچھا کرکٹر بھی تھا

سابق جج نے کہاکہ صولت مرزا نوجوان لڑکا تھا، اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا، اور سنا ہے کہ اچھا کرکٹر بھی تھا۔ ’ناظم آباد کے پوش علاقے کا رہائشی صولت مرزا جسے شروع میں اپنی جماعت نے اون کیا اور بعد ازاں چھوڑ دیا‘۔

شاہد حامد کا قتل کیوں ہوا؟

سابق جج کے مطابق کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حامد کا اس وقت یونین سے کوئی تنازع ہوا اور بات دھکیوں تک چلی گئی۔ ’اس یونین کا تعلق سیاسی جماعت سے تھا اور وہ جماعت بہت طاقتور تھی، یوں معاملہ اتنا اوپر گیا کہ شاہد حامد کو قتل کردیا گیا‘۔

شاہد حامد قتل کیس کے شواہد

سابق جج نے بتایا کہ شاہد حامد کے قتل کے وقت اس کے بیٹے اور اہلیہ ساتھ تھے، یہ صبح 7 یا 8 بجے کی بات تھی جب وہ اپنے دفتر کے لیے شاید نکل رہے تھے۔

انہوں نے کہاکہ شاہد حامد کی اہلیہ اس کیس کی عینی شاہد تھیں جنہوں نے بتایا کہ وہ، ان کے شوہر اور بیٹا گاڑی میں سوار تھے کہ 4 لوگوں نے گاڑی پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک صولت مرزا تھا۔ ’شاہد حامد کی اہلیہ نے صولت مرزا کی جھلکیاں دیکھیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے صولت مرزا کو شناخت بھی کرلیا‘۔

قتل کے بعد کیا ہوا؟

سابق جج کے مطابق شاہد حامد کے قتل کے بعد تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار وہاں پہنچے، ایس ایچ او نے سب سے پہلے شاہد حامد کی اہلیہ کا بیان لے لیا تھا لیکن اس پر دستخط نہیں لے سکا، اب ایس ایچ او انتظار کرنے لگا کہ دیگر اداروں کے لوگ ہٹیں تو وہ دستخط لے سکیں لیکن کرتے کرتے رات کے ساڑھے گیارہ بج گئے اور تب جب دستخط کیے تو تفتیشی افسر نے ان سے کہاکہ آپ اس پر لکھ دیں کہ یہ بیان آپ نے 8:30 بجے دیا ہے، تو شاہد حامد کی اہلیہ نے جواب دیا کہ بیان میرا ہے، دستخط میرا ہے لیکن رات ساڑھے گیارہ بجے کا ہے۔

پولیس نے صولت مرزا کی نشاندہی پر کیا کیا ریکور کیا؟

سابق جج کے مطابق صولت مرزا کے خلاف شواہد بہت تھے، بعد ازاں ان کی ہی نشاندہی پر کلاشنکوف بھی بر آمد کرلی گئی۔ ’فیملی کتنی ہی اچھی کیوں نا ہو جب کوئی اس حد تک جاتا ہے تو وہ عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہوتا ہے‘۔

قتل والے دن صولت مرزا گھر پر تھا؟

سابق جج کا کہنا ہے کہ جب صولت مرزا کی ماں بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئیں تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس دن تو صولت مرزا گھر پر تھا اور اسے تیز بخار تھا، تو میں نے انہیں مکمل موقع دیا اور کہا کہ کوئی ثبوت فراہم کردیں، کسی ڈاکٹر کو لے آئیں لیکن وہ ایسا نہیں کرسکیں۔

شواہد اتنے تھے کہ ان کی اپیلیں خارج ہوئیں

سابق جج کا کہنا ہے کہ اس قتل کے بعد صولت مرزا ملک سے فرار ہوگیا تھا، پھر پتا چلا کہ یہ کسی پرواز سے واپس آرہا ہے اور پولیس نے اسے حراست میں لے لیا۔ اس کیس کے شواہد کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 80 صفحات پر مشتمل میں نے اس پر فیصلہ دیا جسے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن ان کی اپیلیں خارج ہوئیں۔

سابق جج کہتے ہیں کہ 1999 میں جب شاہد حامد قتل کیس کا فیصلہ دیا تو اس وقت میں عدلیہ کا مستقل جج تھا، جب ملٹری کورٹس ختم ہوئیں تو اس وقت کے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ امجد میاں کو کہا گیا کہ آپ کے ججز بہت ڈرپوک ہیں۔

’2006 میں ریٹائر ہوا تو 2011 میں مجھے پھر آفر آئی کہ آپ کانٹریکٹ پر دوبارہ جج کے فرائض انجام دیں میں نے پیشکش قبول کرلی‘۔

’جب ڈیتھ وارنٹ پر دستخط ہوئے‘

سابق جج محمد جاوید عالم کا کہنا ہے کہ اتفاق کی بات یہ تھی کہ میرے پاس ریٹائرمنٹ سے قبل انسداد دہشتگردی عدالت نمبر 5 تھی اور جب میں کانٹریکٹ پر گیا تو تب بھی مجھے 5 نمبر عدالت ہی ملی اور صولت مرزا کا ڈیتھ وارنٹ بھی میرے پاس آیا جو میرے دستخط سے جاری ہوا۔

’صولت مرزا کیس کا شور زیادہ تھا، دہشت اتنی نہیں تھی‘

سابق جج کے مطابق صولت مرزا کیس کے دوران کبھی کوئی دھمکی نہیں ملی لیکن شور بہت تھا، اس وقت فوج اس کیس کو مانیٹر کررہی تھی اور ایک بریگیڈیئر نے مجھے کہاکہ ہم نے آپ کو تحفظ کے لیے 2 موبائلز فراہم کی ہیں کیا آپ کو مزید نفری چاہیے؟ تو میں نے ان سے کہاکہ بات سنیں ماضی میں گارڈز کے ہی مارنے کے واقعات ہم نے پڑھے ہیں، بس اس کیس کے دوران شور بہت تھا یہاں مت جائیے وہاں مت جائیے۔

انہوں نے کہاکہ میں والد کی قبر پر گیا اور ہو کر آبھی گیا تو ڈی آئی جی کی کال آئی کہ آپ وہاں پر کیوں گئے میں نے کہا یار آ تو گیا نا میں؟

’شاہ رخ خان کی رام جانے سے پاکستان کے صولت مرزا تک، دنوں کردار اعتراف جرم اور نصیحت کرتے دفن ہوگئے‘۔

صولت مرزا کی سزا پر عملدرآمد سے چند گھنٹے قبل اس کا ویڈیو بیان ٹی وی چینلز پر نشر ہوا، جس میں پہلی بار صولت مرزا نے انکشاف کیا کہ اس نے ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد کو الطاف حسین کی ہدایت پرقتل کیا، اس قتل کی ہدایات اسے ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری کے گھر پردی گئی تھیں۔

اس بیان کی خاص بات یہ تھی کہ صولت مرزا نے خود کونشان عبرت ظاہر کیا بالکل ایسے ہی جیسے ایک ہندی فلم رام جانے میں شاہ رخ خان کرتا ہے۔

صولت مرزا نے کارکنوں کوتلقین کی کہ وہ اپنی آنکھیں کھول لیں ورنہ انہیں پچھتانا پڑے گا، کیونکہ کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طر ح استعمال کرکے چھو ڑ دیا جاتا ہے۔

صولت مرزا کا کہنا تھا کہ جو بھی مشہور ہوتا ہے اسے تحر یک سے ہٹا دیا جاتا ہے اور جو پکڑا جاتا ہے اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا جاتا ہے، صولت مرزا نے اپنی تمام غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر افسوس کا اظہار کیا اور قوم سے معافی بھی مانگی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp