پاکستان کے طول و عرض سمیت دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر موسم میں گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں، سیاحوں کا آنا جانا سارا سال لگا رہتا ہے، گلگت بلتستان کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے سال بھر ملکی اور غیرملکی سیاح ان علاقوں میں پہنچ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہوٹل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کو سیاحت سے جہاں فائدہ ہوتا ہے وہیں وہ کچھ مسائل کی وجہ سے پریشان بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
شاہنواز ہنزہ میں جوبلی ہوٹل کے نام سے ایک ہوٹل چلا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جون کا مہینہ آگیا ہے مگر اس سال سیاحوں کا رش نہیں ہے، ان کے مطابق اس کی سب سے اہم وجہ بابوسر روڈ کا اب تک نہ کھلنا ہے۔
شاہنواز کا کہنا ہے کہ اگر حکومت صحیح معنوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ ہے تو بروقت بابوسر روڈ کھول دے۔ اس سے سیاح گلگت بلتستان کا رخ کریں گے۔ ’قراقرم ہائی وے کی صورتحال یہ ہے کہ اس پر سفر کرنے والا واپس نہ آنے کا کہہ جاتا ہے کیونکہ اس روڈ پر سفر جان ہتھیلی پر رکھ کر کرنا پڑتا ہے، یہ بھی سیاحوں کہ یہاں کم تعداد میں آنے کی ایک وجہ ہے‘۔
گلگت بلتستان کے لیے فلائٹس دستیاب نہ ہونا سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ
انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کے لیے دستیاب فلائٹس بار بار کینسل ہورہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کو واپس جانا پڑتا ہے، اگر روزانہ کی بنیاد پر 3 سے 4 کنفرم فلائٹس دستیاب ہوں تو لوکل اور انٹرنیشنل سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
شاہنواز نے تجویز دی کہ پی آئی اے کے علاوہ دیگر کمپنیوں کی فلائٹس بھی گلگت بلتستان کے لیے چلنی چاہییں، اس کے علاوہ کراچی سے گلگت اور اسلام آباد سے گلگت کے کرایوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، اس سے لگتا ہے کہ حکومت اور محکمہ سیاحت گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے سنجیدہ نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہنزہ میں اس وقت 18 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جبکہ سردیوں میں بجلی ہوتی ہی نہیں، ہم اب بھی جنریٹر پر گزارا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، نگر سے ٹینکرز میں ہوٹل کے لیے پانی لانا پڑتا ہے۔
’ہنزہ میں اسپتال تو بنے ہیں مگر اسپتالوں کے اندر عملہ نہیں، اس کے علاوہ جدید سہولیات بھی میسر نہیں ہیں، کسی بھی سیاح کی طبیعت خراب ہوتی ہے یا کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو انہیں 3 گھنٹے سفر کے بعد گلگت اسپتال پہنچایا جاتا ہے‘۔
انٹرنیٹ سروسز دستیاب نہ ہونا ایک اہم مسئلہ
شاہنواز نے مزید بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ ہنزہ میں انٹرنیٹ کی سروسز دستیاب نہیں ہیں۔ ساری دنیا انٹرنیٹ پر چل رہی ہے مگر یہاں صرف پیکج کے پیسے لیے جاتے ہیں سروس نہیں ملتی۔
انہوں نے کہاکہ ہنزہ سیاحت کا سب سے بڑا مرکز ہے مگر کہیں پر بھی کیمرے نہیں لگائے گئے یا جو لگائے گئے وہ خراب ہیں، ضروری ہے کہ سیاحتی مقامات پر کیمرے لگے ہوں تاکہ کسی بھی حادثے یا ناخوشگوار واقعے کی صورتحال میں حقیقت معلوم ہوسکے۔
انہوں نے کہاکہ غیرملکی سیاحوں کو اس معیار کی سہولیات مہیا کرنا ہوتی ہیں جو ہم نہیں کرسکتے، اور اس کی ذمہ داری متعلقہ ادارے اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
سیاحت کے فروغ کے لیے علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فروغ ناگزیر
اسکردو سے تعلق رکھنے والے کے ٹو ہوٹل کے مالک ایاز شگری نے بتایا کہ اس سال اسکردو میں بھی سیاح نہیں آئے جس کی وجہ روڈ انفراسٹرکچر اور فلائٹس کے مسائل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے کی نسبت اب اسکردو کی فلائٹس میں بہتری آئی ہے مگر گلگت کی فلائٹس نہ ہونے کی وجہ سے اس کا اثر اسکردو آنے والے سیاحوں پر بھی پڑتا ہے، انہیں فلائٹس نہیں ملتیں اور اگر مل بھی جائیں تو کرائے بہت زیادہ کردیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور ادارے انفراسٹرکچر پر کام کریں، سڑکوں کی صورتحال کو بہتر کیا جائے، یہاں بہترین ہوٹل ہونے چاہییں اور بجلی کی سہولت بھی میسر ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہاکہ حکومت یہاں بنیادی سہولیات یقینی بنائے تو پھر سیاح ازخود ان علاقوں کا رخ کریں گے۔