بابر اعظم کے 2 انمول رتن

بدھ 5 جون 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کے 9 رتن تھے جن کے بغیر وہ کوئی قدم نہ اٹھاتے۔ ہمارے کرکٹ کے بادشاہ یعنی بابر اعظم کے بھی رتن تو ہیں لیکن اکبر اعظم کی طرح 9 کے بجائے صرف 2 ایسے ہیں جنہیں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اکبر کے رتن تو کچھ غیر معمولی کرتے ہوئے اپنی جگہ بنائے ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے بابراعظم کے یہ انمول رتن کچھ نہ کر کہ بھی وہی اعلیٰ مقام حاصل کیے ہوئے ہیں۔

جی ہاں، ٹھیک سمجھے ہیں آپ، ان 2 انمول رتن سے میری مراد شاداب خان اور اعظم خان ہی ہیں۔ میری طرح آپ کی آنکھیں بھی یہ منظر دیکھنے کو ترس ہی ہوں گی کہ جب یہ دونوں رتن کوئی غیر معمولی پرفارمنس دے کر یہ ثابت کردیں کہ ان کی ٹیم میں جگہ میرٹ کی بنیاد پر ہی بنتی ہے۔ المیہ کہیں یا کچھ اور، یہ دونوں ’مہان کھلاڑی‘  ورلڈ کپ ٹی 20 اسکواڈ میں بھی شامل ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں اسلام آباد کی ٹیم کو پاکستان سپر لیگ میں فتح دلوانے والے شاداب خان کی۔ لیکن ان کی اپنی بالنگ اور بیٹنگ انٹرنیشنل میچز میں کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ یوں لگا لیں کہ ٹی 20میچز میں اکلوتی نصف سنچری کوئی 2 سال پہلے بنائی تھی۔ اس کے بعد سے اپنے بلے سے اتنے زیادہ رنز اگلوانے میں ناکام ہی رہے ہیں۔ مستند بلے بازوں کی موجودگی کے باوجود انہیں اوپری نمبرز پر بھیجا جاتا ہے لیکن پھر بھی رنز ان سے روٹھے رہتے ہیں۔ بابراعظم کی خاص نظر کرم کی وجہ سے انہیں تواتر کے ساتھ مواقع دیے گئے اور زبردستی آل راؤنڈر ثابت کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن شاداب خان نے اس ’مہربانی‘ کا بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

انگلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز کے 2 میچز میں یہ عظیم آل راؤنڈر صرف 3 رنز ہی جوڑ سکا۔ ان میں سے ایک اننگ میں تو کھاتہ کھولے بغیر ڈریسنگ روم کی راہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اب اس نام نہاد آل راؤنڈر کی بیٹنگ ہی نہیں بالنگ بھی قابل رحم ہے۔ رنز دینے میں فیاضی کا یہ عالم ہے کہ ٹی 20 میچز کے 4 اوورز کے کوٹے میں 50 سے زیادہ رنز دینا تو عام بات ہے۔ یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ بے بی کرکٹ ٹیم آئرلینڈ کے خلاف حالیہ سیریز کے ایک میچ میں اپنے شاداب خان 54 رنز دے کر ایک بھی کھلاڑی آؤٹ نہ کرسکے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹی 20 میچ میں ہوئی جہاں شاداب کی بالنگ کے آگے 55 رنز تو لکھے تھے لیکن وکٹ کوئی نہیں تھی۔ اسپنرز اسامہ اور ابرار پر شاداب خان کو فوقیت دی جاتی ہے لیکن ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لٹکتا رہتا ہے۔ موصوف کی بہترین بالنگ بھی ہانگ کانگ جیسی کمزور ٹیم کے خلاف رہی جب 2022 میں انہوں نے 4 کھلاڑیوں کا شکار کیا۔ بس اس کے بعد سے اب تک کرکٹ پرستاروں نے انہیں بلے باز کے ہاتھوں پٹتے ہی دیکھا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ لیگ بریک کے چکر میں شاداب خان مسلسل فل ٹاس گیندیں کراتے ہیں جسے بلے باز جم کر لوٹتا ہے۔ شاداب خان کو زبردستی آل راؤنڈر بنانے کے بجائے اگر کسی باصلاحیت اور مستحق کھلاڑی کو اتنے مواقع دیے جاتے تو ممکن ہے کہ پاکستان کے پاس ایک بہترین اسپنر آچکا ہوتا۔

اعظم خان، جی ہاں یہ بھی شاداب خان کی طرح انمول رتن ہیں جو ’غیر نصابی سرگرمیوں‘ میں تو ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں لیکن اپنے کھیل سے ہر موڑ پر مایوس کرتے ہیں۔ لیگ میچز کے شہنشاہ ہیں لیکن انٹرنیشنل میچز میں کارکردگی ایسی ہی ہے جیسے شاداب خان کا کوئی نعم البدل کھلا دیا ہو۔ شاداب خان کو جس طرح زبردستی کا آل راؤنڈر بنانے کی دھن سوار ہے اسی طرح اعظم خان کے بھاری بھرکم ہاتھوں میں دستانے پہنا کر وکٹ کے پیچھے کھڑا کردیا جاتا ہے لیکن کیچ دبوچنے میں وہ عموماً ناکام ہی رہتے ہیں۔  13 ٹی 20 میچز کھیلنے کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں لیکن اب تک بہترین اسکور صرف 30 رنز ہی ہے اور مجموعی رنز کی تعداد صرف 88 ہے۔ جب اعظم خان سے آپ توقع لگا لیں کہ یہ آج کھیل کر دیں گے تو یہ شاداب خان کی طرح آپ کو مایوس کیے بغیر نہیں رہیں گے۔

اعظم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بلند و بالا طاقت ور چھکے مارتے ہیں لیکن کیسی دلچسپ بات ہے کہ ٹی 20 میچز میں وہ اب تک صرف 7 بار ہی گیند کو تارہ بنا کر میدان سے باہر پھینک سکے ہیں۔ اعظم خان کی شاداب خان کی طرح ایک اچھی عادت یہ ہے کہ وہ پچ پر زیادہ دیر رہ کر گیندیں ضائع نہیں کرتے بلکہ تین چار گیندوں کے بعد ہی انہیں ڈریسنگ روم کی یاد ستاتی ہے تبھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ کمپنی جوائن کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

بہرحال اب سب کی نگاہیں ٹی 20 کے ورلڈ کپ پر لگی ہیں اور ہمیں بھی امید بلکہ خواہش ہے کہ کاش بابراعظم کے یہ 2 انمول رتن، اکبر بادشاہ کے 9 رتن میں سے کسی ایک کا روپ دھار کر میدان میں وہ کر دکھائیں جس کی کسی کو امید نہ تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp