سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا

جمعرات 6 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی ) نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لائیو دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب ترامیم کالعدم قراردینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پرفیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

جمعرات کو بانی پی ٹی آئی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے مزید دستاویزات جمع کروانی ہوں تو ایک ہفتے میں جمع کروا دے۔

حکم نامے میں لکھا گیا کہ نیب کا 10 ارب ڈالر ریکوری کا کریڈٹ لینا سرپرائزنگ تھا، اداروں کی جانب سے ایسی غلط دستاویزات جمع نہیں ہونی چاہییں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل خود ریکوری اور بجٹ کی اصل رپورٹ پیش کریں، نیب کا گزشتہ 10 سال کا سالانہ بجٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

مختصر حکم نامے میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے نیب کے پراسیکیوٹر سے استفساربھی کیا ہے کہ نیب کی بجٹ سٹیٹمنٹ کہاں ہے؟

اس سے قبل جمعرات کو بحث کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان ( ایس سی پی) میں نیب ترامیم کیس میں 5 بج کر 25 منٹ پر عمران خان نے سپریم کورٹ بینچ کے سامنے دلائل شروع کیے تو انہوں نے بینچ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ نیب کو ٹھیک کرنا عدالت نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے۔

 تاہم انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کر سکتی ہے جو عوام کو جوابدہ ہو نہ کہ فارم 45 پر منتخب پارلیمنٹ، ہمارے پاس فہرست ہے کہ نیب ترامیم سے کن سیاستدانوں نے فائدہ اٹھایا، یہ نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں کو فائدہ مل رہا ہو وہی ترامیم کریں۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان ترامیم کے تحت کرپشن کے مقدمات ختم نہیں بلکہ دوسری عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے، جسٹس امین الدین خان نے عمران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اس مقدمے کے بارے میں بات کریں اور یہ بتائیں کہ نیب قانون میں کی گئی ترامیم کس آئینی شق سے متصادم ہیں۔ خواجہ حارث احمد تفصیلی دلائل دے چکے ہیں آپ اگر کچھ ایڈ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی ایسی آئینی بنیاد نہیں کہ ہم ان ترامیم کو کالعدم کر دیں، اس کو کالعدم کرنے کے لیے دلائل اور وجوہات کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں بڑی عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ لوگ ترمیم نہیں کر سکتے جو خود بینیفشری ہیں۔

مجھے 5 دنوں میں 3 سزائیں دی گئیں، میرا ان عدالتوں پر کیا اعتماد ہو گا، میں نے دیکھا ہے کہ عدالتیں کیسے چلتی ہیں، 2021 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گتریس نے ایک رپورٹ بھجوائی کہ ترقی پذیر ملکوں میں غربت اس لیے بڑھ رہی ہے کہ امراء پیسہ چوری اور منی لانڈرنگ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اُس وقت ترقی پذیر ملکوں کے 7 ٹریلین ڈالر مغربی ممالک میں پڑے ہیں، میں یہ کہتا ہوں کہ جس نیب کی آپ نے 20 سال تربیت کی، اس کو ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس کو ٹھیک کرنا چاہیے اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کو تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔

اس پر عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک کی حالت بری ہے، ملک بینک کرپٹ ہے، آغاز میں عمران خان نے کہا کہ انہیں اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی ہے کہ میں یہ سب سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کر رہا ہوں، انہوں نے عدالت سے کہا کہ واضح کریں میں کیسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہا ہوں؟۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ ان اپیلوں کی مخالفت کر رہے ہیں تو عمران خان بولے یقیناً میں مخالفت کر رہا ہوں، عمران خان نے شروع میں عدالت کو انگریزی میں مخاطب کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ اردو زبان میں بات کریں جس پر عمران خان نے کہا کہ اردو میرے لیے زیادہ آسان ہے۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ آپ نے لائیو سٹریمنگ کیوں بند کر دی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہے، بہتر ہے آپ موضوع سے متعلق بات کریں، عمران خان نے کہا کہ آپ نے سمجھا کہ میں کوئی بہت غیر ذمےدار انسان ہوں اور پتا نہیں کیا بات کر دوں گا یا میں کوئی بہت خطرناک بات کر دوں گا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آرڈر دیکھیں ہم نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی، عمران خان نے کہا کہ نیب ترامیم مقدمے کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ کون ایمانداری سے ترامیم کرتا ہے اور کون بے ایمانی سے۔ نیب نے مجھ پر مقدمہ بنایا کہ میں نے توشہ خانہ سے ایک کروڑ 80 لاکھ کی گھڑی لی جو کہ اصل میں 3 ارب روپے کی تھی۔

یہاں عدالت نے عمران خان کو ایک بار پھر ٹوکتے ہوئے متعلقہ معاملے تک محدود رہنے کی ہدایت کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم تو یہی کہہ رہے ہیں کہ نیب مس یوز ہو رہا ہے، آپ کل پارلیمنٹ آ جائیں اور آ کر ٹھیک کر دیں۔

عمران خان نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ نیب نے دو کروڑ کی چیز 3 ارب کی دکھا دیں، میں صرف یہ کہتا ہوں کہ چیئرمین نیب کا تقرر سپریم کورٹ کو کرنا چاہیے، یہاں پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو نہیں پاتا تو پھر تھرڈ امپائر فیصلہ کر دیتا ہے۔

 عمران خان نے کہا کہ نیب میرے نیچے تو نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ 2018 میں نیب نے 480 ارب ریکور کیے، 2023 میں صرف 3 لاکھ، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں آپ کو ریزن بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا، کیونکہ اس مقدمے کی وجہ سے نیب کی کارروائیاں رکی ہوئی ہیں، جب یہ فیصلہ ہو جائے گا تو ریکوریاں شروع ہو جائیں گی، عمران خان نے کہا کہ ہم نے پارلیمانی جمہوریت کا تصور برطانیہ سے لیا جس کی بنیاد اخلاقی برتری اور اخلاقیات پر استوار ہے

اس سے قبل سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میری ذاتی رائے میں کسی قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے، کوئی قانون کالعدم ہوسکتا ہے مگر معطل نہیں ہوسکتا، اگر معطل کرنا ہے تو ہر روز سماعت کرکے فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف کیس کی سماعت کررہا ہے۔ جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

نیب ترامیم کیس کی آج ہونے والی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ انہوں نے سی گرین رنگ کا کرتا پہن رکھا ہے۔

’نیب ترامیم سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟‘

سماعت کے آغاز میں اپیل کنندہ کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنی تحریری معروضات تیار کرلی ہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں معروضات عدالت میں جمع کرنے کی ہدایت کی اور سوال کیا کہ کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کررہے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا، ’میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کررہا ہوں۔‘ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپنا رہے ہیں، جس پر فاروق نائیک نے کہا، ’میرا موقف وہی ہے لیکن دلائل اپنے ہیں۔‘

وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کیے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک کے بعد وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے۔ وہ اصل مقدمے میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل تھے جنہیں عدالت میں معاونت کے لیے بلایا گیا ہے۔

خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ بتائیں نیب ترامیم سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکے ہیں، نیب ترامیم آرٹیکل 9، 14، 24 اور 25 کی خلاف ورزی ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیرمنتخب پبلک آفس ہولڈر پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا۔

’نیب آرڈیننس کس کے دور میں آیا؟ نام لے کر بتائیں‘

چیف جسٹس نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں۔ خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ  ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ نیب کی کارروائی کے لیے عوام کا اختیار کتنا ہے، میری سمجھ کے مطابق تو کوئی بھی شہری شکایت درج کرا سکتا ہے، یہ اختیار نیب کا ہے کہ پتا کرے کہ کرپشن ہوئی یا نہیں۔

چیف جسٹس کے پوچھنے پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب آرڈیننس 1999 میں آیا۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ نام لے کر بتائیں کہ وہ کسی کا دور تھا۔

خواجہ حارث نے جواب دیا، ’مشرف کا دور تھا۔‘ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کو سسٹم سے باہر کرنا چاہتے تھے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب بیورو موجود تھا۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ بینچ پر اور انٹراکورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی، اقلیتی رائے درست نہ تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بھی استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے، کیا آپ 90 دنوں میں نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں، کیا آپ 500 ملین سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں۔

’پبلک آفس ہولڈر صرف سیاستدان نہیں‘

 خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم مخصوص شخصیات سے متعلق لائی گئیں اور پبلک آفس ہولڈر صرف سیاستدان نہیں، عوامی نمائندوں کے احتساب سے مراد صرف منتخب نمائندوں کا احتساب نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی محکمے میں کرپشن ہوتی ہے تو ذمہ دار پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے، منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے، کوئی ایک مثال بتائیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے بھی ریمارکس دیے کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکریٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا۔ خواجہ حارث بولے، ’میں کوئی ایسا بیان تو نہیں دینا چاہتا کہ سیاستدان کرپٹ ہوتا ہے۔‘

’ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں؟‘

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ اگر کوئی سیکریٹری سمری میں لکھ دے کہ یہ چیز رولز کے خلاف ہے تو وزیر منظوری دے سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا، ’نہیں مگر اس کے باوجود کرپشن ہوتی ہے، دبئی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنے ہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ  کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں، باقی نوٹ کروا دیں ہم پڑھ لیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہو گا۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ دلائل میں 3 گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا اور بتاؤں گا کہ نیب ترامیم کا معاملہ بنیادی حقوق سے کیسے جڑا ہے، بینظیر کیس میں طے ہوا تھا یہ درخواست گزار کی مرضی ہے کہ وہ مفاد عامہ پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ دونوں فورمز پر ایک ساتھ درخواست دائر کرنے پر پابندی ہے، بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ آنے پر اعتراض نہیں بنتا تھا۔

’ریکارڈ آگیا ہے، وہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست پھر کس نے دائر کی تھی۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ درخواست ہائیکورٹ بار نے دائر کی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ہائیکورٹ کا ریکارڈ آگیا ہے، وہ پی ٹی آئی کے لوگ تھے، شعیب شاہین صاحب نے حامد خان کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ حامد خان کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شعیب شاہین صاحب نے ہائیکورٹ سے یہ کہہ کر التوا لیا تھا کہ ہمارا کیس اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ میں ہم درخواست جون 2022 میں دائر کر چکے تھے، ہائیکورٹ میں درخواست جولائی میں دائر ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس لگنے سے پہلے ہائیکورٹ معاملہ پر  اٹارنی جنرل کو نوٹس کر چکی تھی، آپ سپریم کورٹ میں پہلی سماعت پر کہہ سکتے تھے کہ اب ہائیکورٹ میں کیس شروع ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ بار کے صدر سپریم کورٹ کو آکر کہہ سکتے تھے کیس ہائیکورٹ میں چلنے دیں یا میری درخواست بھی یہاں منگوا لیں، شعیب شاہین اور بانی پی ٹی آئی کا آپس میں تعلق نہ ہوتا تو ہم کہتے چلو دونوں کو ایک دوسرے کی درخواست کا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ میری ذاتی رائے میں کسی قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے، کوئی قانون کالعدم ہوسکتا ہے مگر معطل نہیں ہوسکتا، اگر معطل کرنا ہے تو ہر روز سماعت کرکے فیصلہ کریں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا، ’میں چیف جسٹس سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔‘

’شعیب شاہین ٹی وہ پر بات کرتے ہیں، یہاں آکر بھی جواب دیں‘

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ میری رائے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ درست نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون  کے خلاف کیس کو پہلے لگایا جانا چاہیے تھا، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس پر جلد سماعت کی درخواست دی، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قانون آیا لیکن وہ پھر بھی چیلنج ہوا جس پر حکم امتناع دیا گیا۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ میں درخواست شعیب شاہین نے بطور صدر بار دائر کی تھی۔ چیف جسٹس نے طنزیہ ریمارکس دیے کہ شعیب شاہین صاحب ٹی وی پر تو بات کرتے ہیں، یہاں آ کر ہمیں بھی جواب دیں، مرکزی کیس میں سپریم کورٹ نے 53 سماعتیں کی، شعیب شاہین ایک دن نہیں آئے، ٹی وی کیمرا یہاں لگا دیں تو لمبی لمبی تنقید کریں گے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بینچ کیسے بنا وجہ بتائیں، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں یہ نکتہ طے ہو چکا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بینچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا۔

’شاید اسی وجہ سے ہماری عدلیہ کی رینکنگ نیچے آئی‘

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی، باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے، ذرا یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ سے نوٹس اٹارنی جنرل کو بھی ہوا تھا، انہوں نے کیوں وہاں کوشش نہیں کی کیس دوبارہ لگے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت گرمی کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’خواجہ صاحب انصاف ہو تو ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل کرنے کے بعد اس ایکٹ کا کیس کیوں نہ سنا گیا، نیب ترامیم والا کیس چلانے میں ہی جلدی کیوں کی گئی، شاید انہی حربوں کی وجہ سے ہماری عدلیہ کی رینکنگ نیچے ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیب ترمیم کو کیس کے دوران معطل کیا گیا تھا، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ ایسا نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو تو معطل کردیا تھا، میری رائے میں قانون معطل نہیں ہوسکتا۔

’باہر جاکر شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بنا تو میں نے عدالت میں بیٹھنا ہی چھوڑ دیا تھا، اس وقت یہ بحث چل رہی تھی کہ اختیار میرا ہے یا کسی اور کا، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں جے آئی ٹی تھی، جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا، اس کیس میں آپ وکیل تھے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ ہوسکا۔

’نیب کون چلا رہا ہے؟‘

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میرا ایک گھر ہے، اگر آپ مجھ سے آج اس کی رسیدیں مانگیں تو میرے پاس نہیں ہیں، یہ تو شکر ہے کہ میں نے جج بننے سے پہلے گھر بنا لیا تھا۔

اس پر عدالتی معاون اور عمران خان کے نیب ترامیم مقدمے میں سابق وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوکس اس پہ ہونا چاہیے کہ نیب چلا کون رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب آپ بہت سینیئر وکیل ہیں، آپ بتائیں نیب کون چلا رہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کے سوال پر خواجہ حارث نے لاعلمی کا اظہار کیا تو چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب اتنے سینیئر ہیں، وہ اس ٹریپ میں نہیں آئیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ خواجہ صاحب اگر آپ نے میرا کل اختلافی نوٹ پڑھا ہو تو اس میں ریسپانڈنٹ عمران خان کا بیان ہے کہ نیب کون چلا رہا ہے، اب بانی پی ٹی آئی کو کہہ دیا جائے کہ پرانے قانون کے تحت اپنے اثاثے ثابت کریں، آپ عوامی نمائندوں کے لیے مشکلات بنا رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اتنا ہی سخت مؤقف تھا احتساب کا تو ٹیکس ایمنسٹی کیوں دیتے رہے کہ 2 فیصد دے کر سارا مال لے جاؤ۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نہیں اس پر بعد میں فوجداری کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا ہوا کہ ایک طرف آپ اس سب کو قانونی کور دے رہے ہیں، دوسری طرف فوجداری کارروائی کر رہے ہیں۔ ان سوالوں پر خواجہ حارث نے کہا یہ معاشی فیصلے ہوتے ہیں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ترامیم کالعدم ہو جاتی ہیں تو نقصان بانی پی ٹی ائی کو اپنے کیس میں ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بانی پی ٹی آئی نیب قوانین کو بھگت رہے ہیں مگر چاہتے ہیں یہ کرپشن کے خلاف برقرار رہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے سوال کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں ایف بی آر پہلے ہی موجود ہے مگر ایف بی آر کے معاملے پر آپ ایمنسٹی دے دیتے ہیں۔

’خواجہ حارث صاحب آپ تو نیب کے بینیفشری ہیں‘

سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب عدالتی معاون اور اس مقدمے میں عمران خان کے سابق وکیل خواجہ حارث احمد نے کہا کہ ہم سب نیب کے وکٹم رہ چکے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ تو بینیفشری رہے ہیں جس پر عدالت میں قہقہے لگے۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کا تو احتساب عدالت میں شاید سب سے طویل چلنے والا مقدمہ لڑنے کا ریکارڈ ہے، جس پر خواجہ حارث احمد نے کہا کہ اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوتی تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے واقعہ سنایا کہ ایک صاحب نے نیب کے پیسے دینا تھے، انہیں کہا گیا کہ گورنر بن جائیں، انہوں نے کہا کہ پھر میں نیب کے پیسے نہیں دوں گا، بلوچستان حکومت نے کہا کہ آپ کی جانب سے وہ پیسے ہم دیں گے، پھر بلوچستان حکومت نے وہ پیسے دیے اور ان صاحب نے ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ نیب کا ملزم رہا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بدقسمتی سے ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، انہوں نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نیب پر مکمل اور حد سے زیادہ اعتماد ظاہر کررہے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو زیرعتاب آتا ہے وہی وکٹم بن جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے یاد دلایا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط، اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ نیب پر آپ کو اتنا اعتماد کیوں ہے۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں میں قانون کی بات کررہا ہوں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ دوسرے خلیفہ سے ان کے کرتے کا سوال پوچھا گیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہمارے خلیفہ سے عام آدمی نے پوچھا تھا، عام آدمی آج بھی پوچھ سکتا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا عام آدمی تو بیچارہ کمزور ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ عوام اور ووٹر کی طاقت کو کمزور کیوں کہہ رہے ہیں۔

’اربوں کا غبن، کروڑوں کی واپسی بھی ایمنسٹی ہے‘

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ 9 اے 5 کو ترمیم کے بعد جرم کی تعریف سے ہی باہر کردیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کیسز دیگر فورمز پر جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمنسٹی پارلیمنٹ نے نہیں دی تھی، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنسٹی سے فوجداری پہلوختم نہیں ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے کی جائیداد کا غبن کرکے کروڑوں روپے کی رضاکارانہ واپسی کا اختیار بھی ایمنسٹی ہے۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایمنسٹی حکومت کی پالیسی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایمنسٹی سے حکومت جو کام ختم کرسکتی ہے وہ کام پارلیمنٹ کیوں ختم نہیں کرسکتی۔

خواجہ حارث  نے عدالت کو بتایا کہ رضاکارانہ رقم کی واپسی پر عملدرآمد سپریم کورٹ نے روک رکھا ہے، رضاکارانہ رقم کی واپسی اور پلی بارگین کی رقم کا تعین چیئرمین نیب کرتا ہے۔

’ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو‘

وکیل خواجہ حارث نے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ بحریہ ٹاؤن کیس میں پلی بارگین ہوئی تھی یا رضاکارانہ رقم واپسی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 460 ارب روپے کے عوض سپریم کورٹ نے ریفرنس ختم کردیے تھے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا کہ اگر تمام مقدمات متعلقہ فورم پر چلے جائیں تو کیا کوئی اعتراض ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم کالعدم کیے بغیر مقدمات منتقل نہیں ہوسکتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کی 2023 ترامیم مقدمات منتقلی کے حوالے سے تھیں، سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران منتقلی سے متعلق نیب ترمیم کا جائزہ نہیں لیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس 53 سماعتوں میں سنا گیا۔

ایک نیب کا سزا یافتہ شخص پلی بارگین کرکے گورنر بن گیا، جسٹس جمال خان مندوخیل

بحث کے دوران وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایمنسٹی پروٹیکشن آف اکنامکس ایکٹ کے تحت ہوتی ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک نیب کا سزا یافتہ شخص پلی بارگین کرکے گورنر بن گیا، ایک بات پر تو قوم کے لیے بیٹھ جائیں، جوائنٹ سیشن میں نیب قانون کو دوبارہ ٹھیک کرلیں۔

خرابیوں کا مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ خرابیوں کا مل بیٹھ کر حل نکالنا چاہیے، ’مائنڈ نا کیجئے گا آپ کو نیب پر بہت اعتماد ہے‘۔ ’ کیااب نیب ٹھیک ہوگیا ہے ؟

اس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ صدر مملکت نے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی لیکن کوئی نہیں بیٹھا۔

نیب اب ٹھیک نہیں، پہلے ٹھیک تھا، چیف جسٹس

اس پر چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے انہیں بیٹھ جانے کو کہا اور جسٹس اطہر من اللہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ نہیں نیب اب ٹھیک نہیں ہے پہلے ٹھیک تھا۔

خواجہ حارث نے دلائل مکمل کر لیے تو عدالت نے سماعت میں مختصروقفہ کردیا، چیف جسٹس نےکہا کہ وقفہ کے بعد بانی پی ٹی آئی کو سنا جائے گا، بانی پی ٹی آئی اتنی دیر میں فریش ہو جائیں پھران کو بھی سنیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp