دورہ چین کے ثمرات بچانے کی حکمت عملی

اتوار 9 جون 2024
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دی اکنامسٹ نے لکھا تھا کہ پاکستان جس وقت اقتصادی طور پر مستحکم ہونے لگتا ہے عمران خان اسے دھکا دے کر کنویں میں گرا دیتے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے محروم ہونے کے بعد وہ کبھی دھرنا دیتے تھے، کبھی مارچ کرتے تھے تو کبھی وفاقی دارالحکومت پر یلغار کرکے اسے جلا ڈالنے کی سعی کرتے تھے۔ وہ زمانہ بیت چکا، اب نہ انہیں کوئی گڈ ٹو سی یو کہنے والا ہے اور نہ ایسا کوئی ’معصوم‘ ہی بروئے کار ہے جو کہا کرتا تھا کہ خان صاحب کو عدالت کے احکامات کی خبر نہیں ہوئی ہوگی، اسی لیے انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کردی۔ منظر اور حالات دونوں بدل چکے ہیں لیکن ملک کو غیرمستحکم کرنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب نہ کوئی دھرنا دینے والا ہے اور نہ کوئی ہمارے خوبصورت دارالحکومت کو جلا کر بھسم کرنے کی سکت رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ خرابی کرنے والے خرابی کرنے سے باز نہیں آئے، انہوں نے اپنا طریقہ بدل لیا ہے۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس تباہی کے بارے میں غور کرتے ہوئے کبھی حکیم محمد سعید یاد آتے ہیں، کبھی ڈاکٹر اسرار احمد اور کبھی مجید نظامی مرحوم و مغفور۔ ان بزرگوں کی باتیں یاد آئیں تو پھر وہ انٹرویو بھی ذہن میں آتا ہے جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ (شیطان کے کان بہرے) پاکستان تین حصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور ایٹمی طاقت اس سے چھن جائے گی۔ یہ پس منظر سمجھ میں آجائے تو پھر یہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ پاکستان کو مسلسل غیر مستحکم رکھنے کا عمل کیوں جاری ہے اور خاص طور پر اس کی معیشت پر حملے کیوں کیے جاتے ہیں اور عمران خان کی یہ آرزو کیوں ہے کہ ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوجائے۔ یہی آرزو ہے جو یہ راز کھولتی ہے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس کے پیش نظر چار برس کے اقتدار میں عمران خان اور ان کی حکومت نے ملک کی معیشت کو سنبھلنے نہیں دیا۔

جب کوئی ملک اس قسم کی سازش سے دوچار ہو اور منفی قوتیں پلٹ پلٹ کر ملک کے اعصاب پر حملے کررہی ہوں تو ایسے میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا انسان ان کج ادائیوں کا منتظر رہے اور جب کوئی حملہ ہو، اس سے زخمی ہو جانے کے بعد اپنی مرہم پٹی کر کے اگلے حملے کا انتظار کرے یا کچھ ایسا کرے جس سے اس ناپاک منصوبے کی جڑ کٹ سکے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کا دورہ چین اسی مرض کی دوا ہے اور اس مرض کے جراثیموں کے خاتمے کی ایک حتمی اور طاقتور کوشش ہے۔

میاں محمد نواز شریف 2013 میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر پاک چین اقتصادی راہداری کا ڈول ڈالا۔ مقصد یہ تھا کہ خود انحصاری کی منزل پر پہنچ کر ملک کو اقتصادی اعتبار سے بھی ناقابل تسخیر بنا دیا جائے۔ اس دور میں بہت تیز رفتاری کے ساتھ کام ہوا لیکن تخریبی طاقتوں کی رفتار بھی کچھ کم نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک پر ایسے لوگ مسلط کردیے گئے، پاکستان کا اقتصادی استحکام جنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، لہٰذا انہوں نے آتے ہی پاک چین اقتصادی راہداری اور چین کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں۔ لمحہ موجود میں بھی مسئلے کا حل یہی ہے کہ ملک کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم کیا جائے۔ یہ ہو جائے تو خدانخواستہ ملک تین حصوں میں تقسیم ہوگا، نہ کوئی اسے اس کے دفاعی اثاثوں سے محروم کرسکے گا اور نہ کوئی دشمن اسے 5 اگست جیسا نقصان پہنچا کرکشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کرسکے گا۔

جس طرح پاکستان کے استحکام کی کلید اقتصادی استحکام ہے، بالکل اسی طرح اقتصادی خود انحصاری کی کلید چین ہے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت کو اس پر ہمیشہ شرح صدر حاصل رہا ہے۔ اس شرح صدر کے باوجود حکومت نے کسی عجلت سے کام نہیں لیا۔ اس مقصد کے لیے نہایت سنجیدگی کے ساتھ ایک مربوط حکمت عملی تیار کی۔ اس حکمت عملی کے عناصر میں صرف چین شامل نہیں ہے بلکہ اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوستوں اور برادر ملکوں کو بھی شامل کرلیا گیا تھا تاکہ ترقی اور خوشحالی کے سفر میں اشتراک سے برکت پیدا ہو جائے اور اس سے مستفید ہونے والے ممالک زیادہ سے زیادہ لوگ ہوں۔ اس مقصد کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کے دورے ابھی کل کی بات ہیں اور ان دوروں کے نتیجے میں پاکستان میں ان برادر ملکوں کی سرمایہ کاری کی خبریں بھی ابھی ہمارے ذہن میں تازہ ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف کا دورہ چین بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا جس میں انہوں پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے کر ان کی بنیاد مضبوط کر دی۔ میاں صاحب کا یہ دورہ کتنا اہم تھا، یہ سمجھنے کے لیے صدر اور وزیراعظم کی سطح کے دوروں کا طریقہ کار سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان دوروں سے قبل متعلقہ ملک کا سفیر اور متعلقہ وزارتوں کے حکام ان دوروں کی تفصیلات اور ان میں کیے جانے والے معاہدوں اور فیصلوں کی نوک پلک سنوارتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کی سنجیدگی اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اس کے اخلاص کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لیے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف خود چین گئے، ان کے بعد وزیراعظم کے دورے میں ان منصوبوں یا خواب کو حتمی شکل دی گئی۔

یہ خبریں آچکی ہیں کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری، اقتصادی زون اور صنعتوں کے قیام کے لیے دونوں ملکوں کی تاجر برادری کے درمیان اور سرکاری سطح پر درجنوں معاہدوں اور تعاون کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس بار جتنے شعبوں میں تعاون کا فیصلہ ہوا ہے، وہ تاریخی ہے اور پاکستان کی قسمت بدل دینے کے لیے کافی سے بڑھ کر ہے۔ اب ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے دیں۔ خاص طور پر 2018 جیسی صورتحال کا اعادہ تو بالکل نہ ہونے دیں جیسا عمران اور ان کی حکومت نے کیا۔ ان لوگوں نے سرکاری سطح پر چین اور وہاں سے پاکستان آکر کام کرنے والی کمپنیوں کے خلاف پروپیگنڈا گیا جس سے باہمی اعتماد کی فضا متاثر ہوئی، سرمایہ کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور نظام الاوقات کے مطابق منصوبے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے قوم کا قیمتی وقت اور سرمایہ بھی ضائع ہوا۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام اسی لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ قومی معیشت کے استحکام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی ادارہ جاتی تائید اور حمایت میسر آجائے۔ اس انتظام کے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں لیکن ’اسٹیٹس کو‘ کی قوتوں کو یہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے با انداز دگر منفی طرز عمل اختیار کرکے قومی استحکام کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کردیے ہیں، اس کی بیخ کنی ضروری ہے۔

اس منفی طرز عمل کی بیخ کنی کیسے ہوسکتی ہے؟ ہماری رائے میں اس کے لیے انتظامی اقدامات اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو حقیقت حال سے آگاہ کرکے قومی ترقی کے عمل میں حصے دار بنانا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے مودی حکومت کے خلاف راہول گاندھی کی قیادت میں اختیار کی گئی کانگریس کی حکمت عملی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔

مودی نے اپنے 10 برس کی حکومت کے دوران میں ذرائع ابلاغ کو اس طرح یکطرفہ بنا دیا کہ اسے گودی میڈیا کہا جانے لگا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اختلاف کی آواز بلند کرنے والوں کو قتل اور ریپ کی دھمکیاں دی جانے لگیں جبکہ بھارتی عدلیہ بھی بہت حد تک مودی کی آلہ کار بن چکی تھی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اس کے قانون اور انصاف کے منافی فیصلے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ مودی کی اس حکمت عملی نے مخالفین کو بالکل بے دست و پا کردیا تھا۔ اس کیفیت میں راہول گاندھی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے عنوان سے بار بار مارچ کرتے ہوئے عوام تک پہنچے اور انہیں بتایا کہ مودی کا طرز عمل بھارتی آئین اور بھارت کے اتحاد کے منافی ہے لہٰذا اس سے نجات ضروری ہے۔ کانگریس کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔ آج مودی صاحب بھارت میں اتنے طاقتور نہیں رہے جتنے انتخابات سے پہلے تھے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کی بھرپور اور طویل سیاسی مہمات کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو قومی معیشت اور پاکستانی آئین کے خلاف جاری سازشوں سے آگاہ کرکے بیداری پیدا کی جا سکے۔ دورہ چین کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسا کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp