پاک-بھارت ٹاکرا، امریکا سے شکست بھلانے کا دن آگیا

اتوار 9 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ٹی20 ورلڈ کپ میں کچھ الگ ہی معاملات چل رہے ہیں، کسی بھی میگا ایونٹ میں اتنے زیادہ اپ سیٹس کم ہی دیکھنے کو ملے ہیں، اور ابھی تو ایونٹ آدھا بھی نہیں ہوا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو شکست دی تو نیوزی لینڈ کو افغانستان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح کینیڈا نے آئرلینڈ کو ہرایا جبکہ سری لنکا کو بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر کل نیدرلینڈز کے ہاتھوں جنوبی افریقہ ایک اور شکست کا سامنا کرنے سے بال بال بچا ہے۔

میں نے کل سوشل میڈیا پر لکھا کہ اتنے سارے اپ سیٹس دیکھ کر یہ امید بڑھ رہی ہے کہ پاکستان بھی بھارت کو شکست دے دے گا، جس پر ملے جلے ردِعمل آئے، لیکن جو حال قومی کرکٹ ٹیم کا ہوچکا ہے اسے دیکھتے ہوئے حقیقت یہی ہے کہ اگر پاکستان بھارت کو ہراتا ہے تو یہ ایک اپ سیٹ ہی ہوگا۔

ویسے تو پاکستانیوں کی یادداشت بہت کمزور ہے، ہم دہی لینے جائیں تو دودھ لے آتے ہیں اور دھنیا لینے جائیں تو پودینا، اب ان حالات میں بھلا امریکا کے خلاف شکست کو کب تک یاد رکھیں گے۔ لیکن پھر بھی ایک دھبہ تو ہم پر لگ چکا ہے اور جتنی جلدی اس کو صاف کرلیں اچھا ہے اور آج یہ شکست بھلانے کا اچھا موقع ہے۔

لیکن کامیابی حاصل کرنے کے لیے تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں یہ دیکھنا اور سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بھارت کے خلاف میچ جیتنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم نے بہترین ٹیم کومبینیشن بنا لیا ہے؟ کیا ہم نے امریکا کے خلاف کی گئی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کا فیصلہ کیا ہے؟ کیا ہم نے میرٹ پر ٹیم سلیکشن سے متعلق کچھ سوچا ہے؟

سب سے پہلے نیویارک کی وکٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس میدان میں اب تک 4 میچ کھیلے گئے ہیں اور یہ تمام ہی لو اسکورنگ میچ رہے ہیں، بلکہ 2 میچوں میں تو ٹیموں نے 100 رنز بھی نہیں بنائے، اور اگر اس میدان میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کی بات کریں تو وہ  137 رنز ہے جو کینیڈا نے آئرلینڈ کے خلاف بنایا تھا اور غیر متوقع کامیابی حاصل کی تھی۔

ان اعداد و شمار کو دیکھ کر اندازہ یہی ہورہا ہے کہ پاک-بھارت مقابلے میں شاید زیادہ رنز دیکھنے کو نہ ملیں۔ لیکن یہ تب ہوگا جب ہمارے کھلاڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ کچھ تبدیلیاں ہیں جو ناگزیر ہوچکی ہیں۔

سب سے پہلے شاداب خان کو بٹھا دیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ امریکا کے خلاف شاداب خان کے 40 رنز کو یاد کررہے ہیں لیکن ہمیں ان کی بیٹنگ کی نہیں بلکہ اچھی بولنگ کی ضرورت ہے، جو اب طویل عرصے سے دیکھنے کو نہیں ملی۔ اس معاملے کو ایسے سمجھیے کہ اگر کبھی آپ کا پلمبر غلطی سے آپ کا اے سی ٹھیک کرلے تو اگلی بار کسی بھی خرابی پر آپ پلمبر کو نہیں بلکہ الیکٹریشن کو ہی بلائیں گے کیونکہ اے سی ٹھیک کرنا الیکٹریشن کا کام ہے، یعنی جس کا جو کام ہے، اسے وہی کرنا چاہے، ہاں اضافی صلاحیتیں بعض اوقات فائدہ پہنچا دیتی ہیں جن پر شکر ادا کرلینا چاہیے۔

ٹیم کے ساتھ اسپنر ابرار احمد بھی ہیں، جنہیں اب تک کسی بھی میچ میں موقع نہیں دیا گیا، ایسا کیوں ہوا یہ تو کپتان ہی بتائیں گے، لیکن بہرحال بھارت کے خلاف میچ میں شاداب خان کا ہونا بھارت کو ہر حوالے سے سہولت فراہم کرنے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح حارف رؤف کو ہم نے بہت مواقع دے دیے، اب کچھ آرام دینے کی ضرورت ہے۔

بولرز کی بات کریں اور مڈل آرڈر کی ناکامیوں کو نظر انداز کریں، یہ زیادتی ہوگی۔ اعظم خان بدقسمتی سے مواقعوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، چونکہ اب قومی ٹیم کے پاس مزید کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے انہیں بھی آرام دے دیا جائے تو بہتر ہے۔ ویسے تو افتخار احمد سے بھی اب معذرت کرلینی چاہیے مگر پاکستان کے 15 رکنی دستے میں بلے بازوں کی اس قدر شدید قلت ہے کہ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ٹیم میں رکھنا پڑ رہا ہے۔

دوسری طرف اب ہمیں اوپننگ جوڑی پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے، یہ معاملہ نوگو ایریا ہرگز نہیں بننا چاہیے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان رنز بھی بنا رہے ہیں، اوپننگ جوڑی سے متعلق ریکارڈز بھی بنا رہے ہیں، سب سے زیادہ سنچری پارٹنر شپ کا ریکارڈ بھی بنالیا، لیکن ابتدائی 6 اوورز میں جارحانہ بیٹنگ کرکے مخالف ٹیم کو دباؤ میں لانے کی جو ذمہ داری ان دونوں پر ہے، وہ کبھی بھی پوری نہیں ہوسکی ہے۔ اگر کل آپ نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان میچ دیکھا ہو تو آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 201 رنز بنائے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس ٹیم کے اوپنرز میں سے کسی نے بھی نصف سنچری نہیں بنائی، بلکہ 40 رنز بھی نہیں بنائے مگر 5 اوور میں 70 رنز بناکر ایسا شاندار آغاز فراہم کردیا کہ ٹیم باآسانی 200 رنز تک پہنچ گئی۔

ٹی20 کرکٹ بہت تیزی کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے، یہاں انفرادی ریکارڈز سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کی چھوٹی مگر برق رفتار اننگ سے ٹیم کو کیا فائدہ ہوا؟

بات طویل ہورہی ہے، لیکن اوپننگ میں ہمیں یا تو صائم ایوب کی ضرورت ہے یا پھر فخر زمان کی، ہمیں میچ جیتنے کے لیے ابتدائی 6 اوورز سے فائدہ اٹھانا ہوگا، جو رضوان اور بابر کی موجودگی میں ہرگز ممکن نہیں ہے۔

بھارت کے خلاف میچ سے قبل یقیناً ٹیم انتظامیہ سر جوڑ کر بیٹھی ہوگی، سوچ رہی ہوگی کہ کس طرح یہ اہم ترین میچ جیتا جائے، مگر انہیں ٹیم میں کچھ ضروری تبدیلیوں سے متعلق بھی سوچنا چاہیے۔ آپ جتنی بھی پلاننگ کرلیں، لیکن اگر ٹیم کومبینیشن اچھا نہیں بنے گا تو جیت کا امکان ماضی کی طرح کم ہی رہے گا، لیکن یہ سب لکھنے کے بعد امید نہ ہونے کے باوجود خواہش یہی ہے کہ آج بھارت کو شکست دے کر پاکستان 2 دن پہلے ملنے والے غم کو بھلانے کے لیے قوم کی مدد کرے۔

جب اتنی باتیں کرلی ہیں تو میری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ یہ بھی بتاؤں کہ بھارت کے خلاف پاکستان کا بہترین کومبینیشن کیا ہونا چاہیے۔

صائم ایوب،

بابر اعظم،

عثمان خان،

فخر زمان،

محمد رضوان،

افتخار احمد،

عماد وسیم،

شاہین شاہ آفریدی،

محمد عامر،

عباس آفریدی،

ابرار احمد

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp