بچپن میں افریقہ سے شناسائی صرف ایتھوپیا کے افلاس اور فاقہ زدہ خطے سے زیادہ کی نہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی سیاست کی باریکیاں کچھ سمجھ آنے لگیں تب نیلسن منڈیلا والے افریقہ سے تعارف ہوا۔ 70 کے اواخر اور 80 کی دہائی میں جہاں انڈین آرٹ سینما دھوم مچا رہا تھا وہیں 1977 میں بننے والی امریکن ٹیلی ویژن کی منی سیریز ’روٹس‘ نے افریقہ میں سامراجی ممالک کے رائج کردہ نوآبادیاتی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ روٹس میں افریقیوں کے ساتھ انسانیت سوز جرائم کی مکمل داستان نے افریقہ کا ایک ایسا گہرا نقش چھوڑا جو آج بھی ذہن کو جنجھوڑتا ہے۔
پھر 92 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں ساؤتھ افریقہ کی شاندار کارکردگی نے شمالی افریقہ کے اس حصے کو ٹٹولنے پر مجبور کردیا تب یہ عقدہ کھلا کہ یہ افریقہ کے نقشے میں ایک خوشحال خطہ جبکہ مغربی صحرائی حصہ غریب اور پسماندہ ترین ہے۔ جس میں گنی، سینیگال، گیمبیا اور اس جیسے اور ممالک شامل ہیں۔
گزشتہ برس 2023 میں آگیا ثمینہ نذیر کا ناول ’سیاہ ہیرے‘ اس ناول میں لکھاری نے مغربی صحرائی افریقہ کی جزیات سے قارئین کو متعارف کروایا۔ سیاہ ہیرے میں افریقہ کے پس منظر میں بیک وقت چلنے والی 4 کہانیوں میں بُنے کرداروں نے وہاں کے باسیوں، ان کے رہن سہن، پہناوے، کھانے، رسم و رواج، ، سماجی، معاشرتی اور مذہبی رجحانات کو قارئین کے سامنے مِن و عن کھول کر رکھ دیا۔
مزید پڑھیں
گھومنے پھرنے کی غرض سے گزارا ہوا ایک 2 ماہ کا عرصہ کسی بھی ملک یا معاشرے کو سمجھنے کے لیے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس کے لیے اس معاشرے کا برسوں حصہ بننا ضروری ہوتا ہے اور ثمینہ نذیر نے اپنے زندگی کے 14 سال افریقہ کے مختلف ملکوں میں گزارے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان ملکوں کی خاک چھانی تب کہیں جا کر ’سیاہ ہیرے‘ جیسا بہترین ناول تخلیق ہو پایا۔
ثمینہ نذیر ہر فن مولا خاتون ہیں جو بیک وقت کئی محازوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ ٹی وی اور تھیٹر اداکارہ، ڈرامہ رائٹر، تھیٹر اور اسکرپٹ کی استاد، قصہ گو، افسانہ نگار اور اب ناول نگار بھی۔ سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ثمینہ زندگی کے نشیب و فراز کو بڑی بہادری سے جی کر آج اس مقام تک پہنچی ہیں۔
ثمینہ نذیر کے ناول ’سیاہ ہیرے‘ کی اشاعت بھی ’کلو‘ کی طرح مکتبہ دانیال سے ہی ہوئی ہے۔ بقول ثمینہ ’حوری نورانی نے سیاہ ہیرے کی نوک پلک ایسے سنواری ہے جیسے کوئی اپنے پہلوٹی کی اولاد پروان چڑھاتا ہے‘۔ سیاہ ہیرے برصغیر کا غالباً پہلا ناول ہے جس نے افریقہ کی نوآبادیاتی اور نئے نوآبادیاتی نظام کی تاریخ کو ادبی فن پارے کی شکل میں پیش کیا ہے۔
ناول کا پہلا ہی صفحہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور پھر پڑھنے والا خود بخود پنّے پلٹتا چلا جاتا ہے۔ کچھ ہمارا ماضی بھی نوآبادیاتی نظام سے جڑا ہے تو اس بنا پر ناول کی بُنت سے ایک خاص نسبت بھی محسوس ہوتی ہے۔ کہانی کا آغاز ’اَپن کے کرانچی‘ سے ہوتا ہے جس کا مرکزی میمن کردار ’سلیم گھانچی‘ جو ایک سنار کی دکان میں ملازم ہے۔ سلیم آپ کو کراچی کے لالو کھیت، کیماڑی، منوڑہ ، بلّو، ہر لمحہ رکوع میں رہنے والے ابا علاؤدین جیولرز اور اپنی معشوقہ حور شمائل سے ملواتا ہے۔ دکان میں دن دیہاڑے جیسے ڈکیتی پڑ گئی ہو کہ حور شمائل جاتے جاتے اس کا دل جو لے اڑی تھی۔
ناول میں 4 ادوار کا احاطہ بڑی روانی اور سلیقے سے کیا گیا ہے کہ کوئی دور بھی ذہن سے محو اور تخیل سے پرے نہیں ہو پاتا اور کہانی کا تسلسل ہنوز برقرار رہتا ہے۔ لالوکھیت کا سلیم، کوناکری کی فاطماٹا، فاتو، جارائی، لیلی، نی نی فاتا، یوسف کپاڈیا اور اجمیر کا راجیو شرما ناول میں 1994 کے کردار ہیں۔
شروعات 90 کی دہائی کے کراچی سے ہوتی ہے جو اپنا رنگ بدل رہا تھا، جہاں تقریبات میں پہلے موسیقی کے فکشن و محفلیں عروج پر ہوا کرتی تھیں۔ گائیکی اور رقص کی اکیڈمیوں میں سیکھنے والوں کا تانتا بندھا ہوا کرتا تھا اب وہ فنکار گلیاں سمٹ رہی تھیں۔ کراچی لسانی فسادات اور فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا تھا، ناول نگار نے ان تمام سیاسی وسماجی واقعات کا بڑی خوبصورتی سے نقشہ کھینچ کر اسے الفاظ میں پرو دیا ہے۔
ناول میں 1958 کے دور میں قاری کی گنی کے ساحلی شہر کوناکری میں ژاں پال کلاد اور امیناٹا سے ملاقات ہوتی ہے۔گنی سمیت افریقہ میں پچھلے ڈیڑھ 100 سال سے فرانس کا قبضہ ہے۔ آج کے تہذیب یافتہ دنیا کے علمبردار ملک فرانس نے کس بے دردی سے افریقہ کے ذخائر کو لوٹا، ان پر اپنا تسلط قائم کیا، افریقی عوام کی جانوروں کی طرح بازار میں بولیاں لگائیں اور صلے میں اس سرزمین کو کیا دیا؟ ٹکا بھی نہیں، بلکہ جاتے جاتے اپنی انا کو تسکین پہچانے کی خاطر خطے کو مزید تہس نہس کر گئے۔
سلیم اور راجیو کا کوناکری میں کئی دہائیوں قبل سندھ سے ہجرت کرنے والی ماتاپرساد اور ان کے خاندان سے تعلق بننا کئی کہانیوں کو جنم دیتا ہے جو قاری کو کبھی عشق کے سمندر میں غرق کر دیتی ہیں تو کبھی درد کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن۔
’سیاہ ہیرے‘ میں جہاں سلیم پورے ناول میں چھایا ہوا ہے وہیں اس ناول کے مضبوط اور بھرپور کردار عورتوں کے ہیں چاہے وہ امیناٹا ہو یا فاطماٹا، جھانوی ہو یا نی نی فاتا یا لیلیٰ۔ یہ تمام کردار جہاں محبت میں ہمت اور بے خوفی میں مرد کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو وہیں خود کو منوانے کے لیے خطرات مول لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے، اور مولائی ادریس زریون کی حسین دوشیزہ حلیمہ؟ جو سلیم کو کس بہادری سے اپنی دردناک کہانی اس وعدے پر کہ ’بتی گُل ہی رکھنا‘ کیسے کربناک انداز میں سناتی ہے کہ یقیں ہو جاتا ہے کہ اندھیرا کئی راز اگلوانے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔
’سیاہ ہیرے‘ میں ایک ایک جملے میں عورت کے کئی روپ قاری کے آگے پیچھے ناچتے چلے جاتے ہیں، جیسے:
’عورت کو بھی اپنے زخم چاٹنے میں زیادہ لذت ملتی ہے‘۔
’سامنے سانولی موم بتی پگھلنے لگی‘
’عورت تیرا نام گرگٹ کیوں نہ ہو‘
اسی طرح ناول میں ثمینہ انسانی رویوں کے بھی کئی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں:
’وہ جس پیار سے میرے لیے کھانا پکاتی کھلاتی مجھے لگتا کہ میری ماں میرے پاس ہے، ’ہم ہر رشتے میں وہی رشتہ تلاش کرلیتے ہیں جو میسر نہیں ہوتا جیسے وہ مجھ میں اپنے بچے اور میں اس میں ماں اور اپنے گھر والے‘
ثمینہ ہمیں ناول میں 1805 کے کوناکری اور ڈاکار کی سیر کے دوران ٹیجان، بالی اور جیرالڈ پال کا بھی تعارف کرواتی ہیں۔ یعنی ناول تین 100 سال کے تاریخی واقعات کا نچوڑ ہے۔ ایسے ناولوں میں قاری کی دلچسپی برقرار رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن ثمینہ نذیر اس معرکہ کو بڑی سہولت سے سر کرتی نظر آتی ہیں۔
ابتدا سے انتہا تک قاری کے ذہن میں ناول کے اختتام سے متعلق مختلف امکانات لہروں کی مانند ابھرتے ہیں، بکھرتے ہیں لیکن ناول کے آخری مراحل میں ثمینہ قاری کو ششدر کردیتی ہیں۔ ناول میں ثمینہ نذیر نے انسانی جذبوں، ناآسودہ خواہشات، پیسے کی ہوس، سیاسی چالوں، طاقت کے نشے میں چور سامراجی ممالک کا غیر ترقی یافتہ خطوں پر اجارہ داری قائم کرکے مقامی لوگوں کو غلام و محکوم بنانا، دنیا کے جانبدارانہ رویے اور مذہب اور ذات پات کے گورکھ دھندوں کا خوب پردہ چاک کیا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ’اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ ماضی میں کیا ہوا تو تاریخ پڑھو، لیکن اگر یہ جاننے کی خواہش ہے کہ کیسا محسوس ہوا ہوگا تو ادب پڑھو‘۔