’پر وہ چھوٹی سی الھڑ سی لڑکی کہاں‘

جمعرات 11 اپریل 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’مُنّن بھائی! جلدی سے آڈر لیں‘ ۔۔ سارے دوست فرط جذبات سے ایک ساتھ زوردار آواز لگاتے۔

مُنّن بھائی کا اصل نام تو معلوم نہیں تاہم بچپن سے انہیں اسی نام سے مخاطب کرتے سنا تو بچوں کی زبان پر بھی یہی نام چڑھ گیا۔

مُنّن بھائی ہمارے علاقے کی ایک ٹپ ٹاپ دکان کے مالک تھے، دکان میں پردوں سے آراستہ ایک فیملی روم بھی تھا جس میں ایئر کنڈیشنر لگا ہوا تھا۔ آپ سمجھ لیں کہ یہ 1986 کا ایک ’ گلیوریا جینس‘ ٹائپ کا کیفے تھا۔

مُنّن بھائی گول مٹول سے آدمی تھے، ان کے گھرانے کا شمار علاقے کے نسبتاً امیر خاندانوں میں ہوتا تھا۔ محلے کی بزرگ خواتین کے مطابق مُنّن بھائی کی امّاں پورے پیٹ کے ساتھ چاند گرہن والی رات صحن میں دھڑلے سے چارپائی پر سوتی رہیں اس لیے مُنّن بھائی جب پیدا ہوئے تو ان کا اوپر والا ہونٹ 2 حصوں میں بٹ ہوا تھا۔

مُنّن بھائی دیگر بہن بھائیوں کی طرح تعلیم میں تو کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے پر کاروبار خوب چمکا لیا تھا۔ اس ایئرکنڈیشنڈ فیملی ہال میں ہم بچوں کے لیے صرف ایک دن مختص تھا جب ہماری جیب عیدی کے پیسوں سے کم از کم اتنی بھری ہوتی تھی کہ ہم چکن بوٹی کے ساتھ ’آر سی کولا‘ اور ’اِگلو کی کون‘ خود خرید کر کھا سکتے تھے، اور وہ ’عید الفطر‘ کا دن ہوتا۔

اس زمانے کی عید بھی کیا ہوا کرتی تھی۔ جیب بے شک پیسوں سے خالی پر دل محبت سے لبریز ہوتے تھے۔ اتنی نفسانفسی کا عالم نہیں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ’رمضان‘ ابھی ’رمدان‘ نہیں ہوا تھا۔ مذہب کے دکھاوے کے لیے سوشل میڈیا اور سحری افطار ٹرانسمیشن کا کوئی وجود نہیں تھا۔ محلے داری نظام میں دیگر کھانوں کی طرح افطار کی ٹرے پڑوسیوں کو بھجوانا بھی ایک رکھ رکھاؤ کا انداز لیے ہوئے تھا۔

رمضان میں کس نے کتنے  روزے رکھے یا چھوڑے؟ پانچ وقت نماز ادا کی یا نہیں؟ تراویح باجماعت مسجد میں ادا ہوئی یا گھر پر پڑھ لی؟ ان بنیادوں پر نہ احترام کا رشتہ متاثر ہوتا اور نہ ہی کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ چاند رات کا البتہ سب کو انتظار ہوتا۔ کیا بڑے کیا بچے یوں لگتا تھا سب گھروں کو تالے لگا، بازاروں میں آن پہنچے ہیں۔

کراچی کی مارکیٹوں میں رنگ برنگ جگمگاتی لائٹوں سے سجی دکانیں خریداروں کے جھرمٹ میں گھری دلہن معلوم ہوتیں۔ جن لوگوں کو مارکیٹ کے اندر دکان میسر نہیں ہوتی وہ سڑک پر ہی اسٹالز لگا کر گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے۔ یہ ایک عجیب روایت تھی کہ بے شک عید آنے سے قبل کتنی ہی تیاری کرلی جاتی لیکن چاند رات پر مارکیٹ کا ایک چکر لازمی ہوتا تھا۔

اس وقت چوڑیوں کی دکانوں پر باقاعدہ ایسے سیلز مین رکھے جاتے تھے جو چوڑیاں پہنانے میں ملکہ رکھتے تھے۔ چونکہ اس وقت کانچ کی چوڑیاں مقبول تھیں تو کوشش یہی ہوتی تھی کہ دکان پر ہی جاکر پہنی جائیں تاکہ ٹوٹنے پر دکاندار ہی ذمہ دار ہو۔

عید کارڈ کا رواج اس وقت زوروں پر تھا۔ آپس میں عید سے پہلے عید کارڈ، چھوٹے موٹے تحائف مثلاً بالیاں، لاکٹ، انگوٹھی وغیرہ کے ساتھ دیے جاتے۔

حیرت انگیز امر یہ تھا کہ مطلق العنان آمر ضیاالحق کے دورِ حکومت میں انڈین فلموں کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ عوام بھارتی ہیرو اور ہیروئنز کے متوالے تھے۔ اسی لیے جگہ جگہ بھارتی آرٹسٹوں کے پوسٹ کارڈ مارکیٹوں کی زینت بنتے اور ہاتھوں ہاتھ بکتے۔

ماڈرن بیوٹی پارلر کا چلن کراچی میں 80 کی دہائی میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے تو نائی کے پاس ٹنڈ کروانے لے جایا جاتا تھا یا پھر گھر ہی پر امّی ہم سب کے ’کٹورہ کٹ‘ بال کاٹ دیا کرتی تھیں۔ ٹین ایج میں ہمیں بھی عیدالفطر پر بیوٹی پارلر سے بال کٹوا کر ڈرائیر سے انہیں سُکھا کر سیٹ کروانے کا استحقاق حاصل ہوا۔

چاند رات کو ہاتھوں پر مہندی لگوانا لڑکیوں کا من پسند مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ اکثر مہندی لگانے کی ماہر خاندان ہی کی کوئی لڑکی زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتی اور دیگر لڑکیاں اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ جاتیں اور اپنی اپنی باری کا انتظار کرتیں۔

عید پر امّی ہم سب کو کم از کم 2 جوڑے کپڑوں کے، سینڈل، بُندے، اپنی پسند سے لینے کی کھلے دل سے اجازت دیتیں۔ عید کا سب سے مضحکہ خیز آئٹم ’پلاسٹک کا کالا چشمہ‘ اور ’پرس‘ ہوا کرتا تھا، جن کے بنا عید، عید ہی نہ لگتی تھی۔

چاند رات کو محلے بھر میں دن کا سماں ہوتا، ہر گھر میں عید کے لیے مختلف پکوانوں کی تیاری رات ہی سے شروع کردی جاتی۔ اس رات ہم اگلے دن عید پر نئے جوڑے، جوتے، جیولری اور عیدی ملنے کی خوشی میں صبح تک کروٹیں ہی بدلتے رہتے تھے۔

عام دنوں میں امّی کے صبح جلدی اٹھانے پر ہمیں ’موت‘ آتی تھی تاہم عید کی صبح  ہمارے کان ’اٹھ جاؤ اب‘ کے منتظر رہتے۔ عید کے دن امّی ہمارے بال سنوارتیں، کاجل اور اپنی پسندیدہ لپ اسٹک لگاتیں۔ لپ اسٹک لگانے کی عنایت سال میں صرف میٹھی اور بقر عید ہی پر ہوا کرتی تھی۔ میں فوراً سے پیشتر امّی کی آنکھ بچا کر تھوڑی سی لالی بھی گالوں پر بھی مَل لیتی۔

ہم تیار ہوکر سب سے پہلے دادا دادی کو سلام کرتے پھر بڑے چاؤ سے امّی کے ہاتھ کا شیر خرما کھاتے۔ گھر میں اس دن امّی شیر خرما کے ساتھ چاولوں کی ربڑی کھیر، سِل پر کُٹے ہوئے قیمے کے کوفتہ کری اور پلاؤ بناتیں۔ لیکن سب سے قیمتی اور دلپزیر وقت مُنّن بھائی کے فیملی روم میں بن ٹھن کر بیٹھ کر اور کھانے پینے کا آرڈر دینے کا ہوتا تھا۔ مُنّن بھائی تھے تو کاروباری آدمی اس لیے آج کے دن وہ ہمیں ڈانٹ کر بھگانے کے بجائے چابکدستی سے ہمارا آرڈر ہم تک پہنچاتے۔

یہ سب باتیں اب قصہ پارینہ ہوئیں۔ اپنے بچوں سے جب ان کہانیوں کا تذکرہ کرو تو وہ منہ کھولے اس طرح ہمیں دیکھتے ہیں کہ جیسے کوئی بیوقوفی سرزد ہوگئی ہو کیونکہ آج ہم وہ سب باآسانی خرید سکتے ہیں جو اس وقت ہماری دسترس سے باہر تھا پر اب ان چیزوں کی طلب ہی نہیں رہی۔

بقول ابن انشاء

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے

آج میلہ لگا ہے اسی شان سے

آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں

آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں

نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں

پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں

آجکل کے بچوں کا بھی قصور نہیں دنیا کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں۔ اب کہاں مُنّن بھائی کی دکان اور کیسی ’اِگلو آئسکریم‘؟

اب بچے آن لائن عید کی شاپنگ کرتے ہیں۔ شیر خرما، بریانی، کوفتے کے بجائے فوڈ پانڈا سے اٹالین پاستا یا جیپنیز سوشی کا آرڈر دے دیا جاتا ہے کہ منہ کا ذائقہ ایسے ہی کھانوں کا عادی ہوچکا ہے۔ اب بچوں کے نزدیک عید دیر تلک سوکر گزارنے کا نام ہے۔ شام کو موڈ ہوا تو کوئی نیا سوٹ نکال کر پہن لیا۔ اب وہ سالانہ شاپنگ کرنے کے دن گئے۔ لیکن نہیں یہ سارے چونچلے بڑے شہروں میں بسنے والوں کے ہیں جو اس ملک کا صرف 10 فیصد ہیں۔ 90 فیصد آج بھی سال بھر ایک نئے جوڑے اور کسی  مُنّن بھائی کی دکان پر بیٹھ کر ’آئسکریم اور کوکا کولا‘ کا آرڈر دینے کا انتظار کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp